برطانوی سائنسدان سر آئزک نیوٹن (1642ء تا 1727ء) کو یہ منفرد اعزاز حاصل ہے کہ اس نے قدرت کا یہ پوشیدہ راز پا لیا کہ ہر عمل کا ردّعمل ہوتا ہے۔ سائنس کی دنیا میں اب اسے نیوٹن کا تیسرا قانون کہا جاتا ہے جس کے مطابق ہر عمل کا اس کے برابر اور مخالف ردّعمل ہوتا ہے۔ نیوٹن کا یہ سنہری قانون سیاست پر لاگو کر کے دیکھیں تو یہاں بھی ہر عمل کا اس کے ہی برابر سیاسی ردّعمل ہوتا ہے جس طرح لالی وڈ کی پنجابی دنیا میں جس دن سلطان راہی تاریک راہوں میں مارا گیا اسی روز مصطفیٰ قریشی زندہ ہوتے ہوئے بھی مرگئے تھے جب ایکشن ہی نہ رہا ری ایکشن کیسا؟
جب ہیرو ہی دنیا سے اٹھ گیا تو ولن اکیلا کیا کرے گا؟۔ پاکستانی سیاست میں بھی عمران خان اور شہباز حکومت کا وہی تعلق ہے جو سلطان راہی اور مصطفیٰ قریشی کا تھا آج اگر عمران کی سیاسی قوت اور مقبولیت ختم ہوتی ہے یا بہت کم ہو جاتی ہے تو شہباز حکومت کی سرے سے کوئی اہمیت ہی نہیں رہے گی۔ شہباز حکومت اسی وقت تک مضبوط ہے جب تک عمران خان اپنی سیاسی طاقت اور مقبولیت پر قائم و دائم ہے اس مثال کو مزید سمجھنے کے لئے یہ تاریخی واقعہ بیان کیا جاسکتا ہے جس دن نون لیگ نے لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس قیوم کے ذریعے بینظیر بھٹو کو نااہل کیا تھا اور سزائیں سنائی تھیں اسی دن تقدیر نے نواز شریف کے اقتدار پر بھی سرخ دائرہ لگا دیا تھا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ یہی بات نواز شریف کو اس وقت ان کے منہ پر بھی بتا دی گئی تھی کہ بینظیر بھٹو کی سیاست کا خاتمہ آپکی سیاست کو بھی زوال پذیر کر دے گا کیونکہ ہر عمل کا ردّعمل ہوتا ہے۔ اہل اقتدار سمجھتے ہیں کہ ہم مخالف کو کمزور کر لیں گے تو ہم مزید طاقتور ہو جائیں گے لیکن عملی طور پرہوتا یہ ہےکہ آپ کی مضبوطی اور آپ کی اہمیت کی اصل وجہ آپ کا سیاسی مخالف ہوتا ہے آپ خود نہیں ۔ اسی لئے کہتے ہیں کہ دنیا کے بڑے سیاستدان اپنے مخالف کو بھی مضبوط رکھتے ہیں بلکہ اسکا انتخاب بھی خود ہی کرتے ہیں اور بظاہر مخالفت کرتے ہوئے اندر سے اسے مضبوط بھی کر رہے ہوتے ہیں۔
اس ساری طویل کہانی سنانے کا مقصد یہ ہے کہ شہباز حکومت کے طوطے کی جان عمران خان میں ہے عملی طور پر شہباز حکومت عمران خان کو کمزورکرنا چاہتی ہے اور عمران خان اور انکی جماعت شہباز حکومت کو سر ے سے ہی گرانا چاہتی ہے۔ نیوٹن کے تیسرے قانون حرکت کو نہ سمجھنے والے یہ دونوں بہت بھولے ہیں اگر شہباز شریف کی کمزور حکومت گری تو عمران کے لئے مشکلات اور بڑھ جائیں گی اور اگر نون نے عمران کو کونے میں لگا دیا تو نون کی اپنی سیاسی اہمیت ختم ہو جائے گی ۔
یہ دونوں بھولے سمجھ نہیں رہے کہ انکی بقا ایک دوسرے کی مضبوطی میں مضمر ہے۔ اب اگر تو انہوں نے لڑ لڑ کر ایک دوسرے کو ختم کرنا ہے تو پھر رسم و سہراب اور سلطان راہی اور مصطفیٰ قریشی کی طرح ایک کی موت دوسرے کو خودبخود انجام تک پہنچا دے گی۔ قومی اتحاد نے فوج کے ساتھ مل کر ذوالفقار علی بھٹو کو اقتدار سے نکالا جب بھٹو کو پھانسی ہو گئی تو جنرل ضیاء الحق نے قومی اتحاد کے وزیروں کی چھٹی کروا دی تھی کیونکہ جنرل ضیاء نے قومی اتحاد کے کندھے کو استعمال کر کے بھٹو کو انجام تک پہنچایا اور جب بھٹو کو ختم کر لیا تو اس نے قومی اتحاد کی موت کا خود ہی انتظام کر دیا۔ بعض اوقات رقیب کی حفاظت بھی عاشق کی ذمہ داری بن جاتی ہے دشمن کی جان اور عزت کا تحفظ نہ کیا جائے تو خود آپ کی جان اور عزت کو بھی خطرات لاحق ہوتے ہیں۔
اگر نیوٹن کا تیسرا قانونِ حرکت درست ہے اور اگر اوپر دی گئی تاریخی اور سیاسی مثالیں درست ہیں اور اگر آج کی سیاست کے دو بڑے فریق نونی اور انصافی واقعی بھولے ہیں اور یہ نہیں سمجھ رہے کہ انکی جان اور سیاست ایک دوسرے کے اندر ہے تو پھر انجام دونوں کی کمزوری اور خاتمے میں ہوگا اگر یہ بھولے تھوڑے سیانے ہو جائیں اور مذاکرات کو ناکام کرنے کی بجائے ہر صورت انہیں کامیابی کی طرف لے جائیں تو وہ ایک دوسرے کی سیاسی زندگی کے ضامن بن سکتے ہیں اور اگر ایک دوسرے سے دست و گریباں رہے اور بالآخر ایک فریق ہار گیا تو بھی دوسرا فریق نہیں جیتے گا اصل میں وہ ایک تیسرے فریق کو مضبوط کر رہا ہوگا۔
مرحوم و مغفور بابائے جمہوریت نوابزادہ نصراللہ خان کہا کرتے تھے کہ جمہوریت میں کوئی رکاوٹ یا خرابی آجائے تو اسکا علاج مزید جمہوریت ہے اگر اسی اصول کو مدنظر رکھا جائے تو مذاکرات ناکام ہونے کا علاج مزید مذاکرات میں ہے اگر جنگوں کا اختتام مذاکرات سے ہو سکتا ہے تو سیاسی اختلاف کاکیوں نہیں؟
مذاکرات کی ناکامی کی اصل وجہ نون اور انصاف دونوں کی سیاسی پوائنٹ اسکورنگ ہے نہ ان میں مصالحت کا رنگ نظر آرہا ہے اور نہ ہی ایک دوسرے کے لئے لچک ہے ۔اس ادنیٰ طالبعلم کی رائے میں ان دونوں فریقوں کی سیاسی زندگی کا انحصار مذاکرات کی کامیابی میں ہے۔
قومی اتحاد اور پیپلزپارٹی میں مذاکرات ناکام ہوئے تو مارشل لا لگ گیا ۔ بینظیر بھٹو اور نواز شریف میں صلح نہ ہوئی ایک دوسرے کے خلاف صف آرا رہے نتیجہ کیا نکلا؟ تیسرے فریق نے مارشل لا لگا دیا۔ ہم ابھی تک خوش قسمت ہیں کہ شدید سیاسی محاذ آرائی کے باوجود یہاں مارشل لا نہیں لگا وگرنہ اہل سیاست جس طرح لڑ رہے ہیں جس طرح عدلیہ اور فوج کی لڑائی کروانا چاہتے ہیں یا جس طرح شہروں کا محاصرہ کیا جاتا ہے اورنونی، عمرانیوں کوہلکی سی رعایت ملنے پر ناک بھوں چڑھاتے ہیں ،یہ صرف مخالف کے دشمن نہیں یہ اپنے ہی پائوں پر کلہاڑیاں مار رہے ہیں ،
دونوں فریقوں کی سیاست اور زندگی بچانے کا واحد راستہ مذاکرات کی کامیابی ہے کمزور معاہدہ بھی ہوجائے تو یہ دونوں کے بچائو کا راستہ بنائے گا۔ صلح حدیبیہ کو مسلمانوں کے لئے کمزور معاہدہ تصور کیا گیا لیکن اسی معاہدے نے فتح مکہ کی راہ ہموار کی۔ تحریک انصاف کو کمزور معاہدہ یا ہلکا پھلکا ریلیف بھی ملے تو لے لینا چاہئے آج کی مصلحت کل کی فتح بن سکتی ہے اور آج کی پیشکش کو مسترد کرنا مستقبل کی خود کشی کا پیش خیمہ ہوسکتا ہے!!
اس موٹے گینڈے نے کبھی کوئی حق کی بات کی ہے تو بتائے۔۔
ان جیسے بے غیرتوں کیوجہ سے ہی ہندوستان ساری عمر غلام رہا ہے اور اسے کوئی مسلہ نہیں کہ پاکستان بھی تا قیامت غلام ہی رہے۔
برطانوی سائنسدان سر آئزک نیوٹن (1642ء تا 1727ء) کو یہ منفرد اعزاز حاصل ہے کہ اس نے قدرت کا یہ پوشیدہ راز پا لیا کہ ہر عمل کا ردّعمل ہوتا ہے۔ سائنس کی دنیا میں اب اسے نیوٹن کا تیسرا قانون کہا جاتا ہے جس کے مطابق ہر عمل کا اس کے برابر اور مخالف ردّعمل ہوتا ہے۔ نیوٹن کا یہ سنہری قانون سیاست پر لاگو کر کے دیکھیں تو یہاں بھی ہر عمل کا اس کے ہی برابر سیاسی ردّعمل ہوتا ہے جس طرح لالی وڈ کی پنجابی دنیا میں جس دن سلطان راہی تاریک راہوں میں مارا گیا اسی روز مصطفیٰ قریشی زندہ ہوتے ہوئے بھی مرگئے تھے جب ایکشن ہی نہ رہا ری ایکشن کیسا؟
جب ہیرو ہی دنیا سے اٹھ گیا تو ولن اکیلا کیا کرے گا؟۔ پاکستانی سیاست میں بھی عمران خان اور شہباز حکومت کا وہی تعلق ہے جو سلطان راہی اور مصطفیٰ قریشی کا تھا آج اگر عمران کی سیاسی قوت اور مقبولیت ختم ہوتی ہے یا بہت کم ہو جاتی ہے تو شہباز حکومت کی سرے سے کوئی اہمیت ہی نہیں رہے گی۔ شہباز حکومت اسی وقت تک مضبوط ہے جب تک عمران خان اپنی سیاسی طاقت اور مقبولیت پر قائم و دائم ہے اس مثال کو مزید سمجھنے کے لئے یہ تاریخی واقعہ بیان کیا جاسکتا ہے جس دن نون لیگ نے لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس قیوم کے ذریعے بینظیر بھٹو کو نااہل کیا تھا اور سزائیں سنائی تھیں اسی دن تقدیر نے نواز شریف کے اقتدار پر بھی سرخ دائرہ لگا دیا تھا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ یہی بات نواز شریف کو اس وقت ان کے منہ پر بھی بتا دی گئی تھی کہ بینظیر بھٹو کی سیاست کا خاتمہ آپکی سیاست کو بھی زوال پذیر کر دے گا کیونکہ ہر عمل کا ردّعمل ہوتا ہے۔ اہل اقتدار سمجھتے ہیں کہ ہم مخالف کو کمزور کر لیں گے تو ہم مزید طاقتور ہو جائیں گے لیکن عملی طور پرہوتا یہ ہےکہ آپ کی مضبوطی اور آپ کی اہمیت کی اصل وجہ آپ کا سیاسی مخالف ہوتا ہے آپ خود نہیں ۔ اسی لئے کہتے ہیں کہ دنیا کے بڑے سیاستدان اپنے مخالف کو بھی مضبوط رکھتے ہیں بلکہ اسکا انتخاب بھی خود ہی کرتے ہیں اور بظاہر مخالفت کرتے ہوئے اندر سے اسے مضبوط بھی کر رہے ہوتے ہیں۔
اس ساری طویل کہانی سنانے کا مقصد یہ ہے کہ شہباز حکومت کے طوطے کی جان عمران خان میں ہے عملی طور پر شہباز حکومت عمران خان کو کمزورکرنا چاہتی ہے اور عمران خان اور انکی جماعت شہباز حکومت کو سر ے سے ہی گرانا چاہتی ہے۔ نیوٹن کے تیسرے قانون حرکت کو نہ سمجھنے والے یہ دونوں بہت بھولے ہیں اگر شہباز شریف کی کمزور حکومت گری تو عمران کے لئے مشکلات اور بڑھ جائیں گی اور اگر نون نے عمران کو کونے میں لگا دیا تو نون کی اپنی سیاسی اہمیت ختم ہو جائے گی ۔
یہ دونوں بھولے سمجھ نہیں رہے کہ انکی بقا ایک دوسرے کی مضبوطی میں مضمر ہے۔ اب اگر تو انہوں نے لڑ لڑ کر ایک دوسرے کو ختم کرنا ہے تو پھر رسم و سہراب اور سلطان راہی اور مصطفیٰ قریشی کی طرح ایک کی موت دوسرے کو خودبخود انجام تک پہنچا دے گی۔ قومی اتحاد نے فوج کے ساتھ مل کر ذوالفقار علی بھٹو کو اقتدار سے نکالا جب بھٹو کو پھانسی ہو گئی تو جنرل ضیاء الحق نے قومی اتحاد کے وزیروں کی چھٹی کروا دی تھی کیونکہ جنرل ضیاء نے قومی اتحاد کے کندھے کو استعمال کر کے بھٹو کو انجام تک پہنچایا اور جب بھٹو کو ختم کر لیا تو اس نے قومی اتحاد کی موت کا خود ہی انتظام کر دیا۔ بعض اوقات رقیب کی حفاظت بھی عاشق کی ذمہ داری بن جاتی ہے دشمن کی جان اور عزت کا تحفظ نہ کیا جائے تو خود آپ کی جان اور عزت کو بھی خطرات لاحق ہوتے ہیں۔
اگر نیوٹن کا تیسرا قانونِ حرکت درست ہے اور اگر اوپر دی گئی تاریخی اور سیاسی مثالیں درست ہیں اور اگر آج کی سیاست کے دو بڑے فریق نونی اور انصافی واقعی بھولے ہیں اور یہ نہیں سمجھ رہے کہ انکی جان اور سیاست ایک دوسرے کے اندر ہے تو پھر انجام دونوں کی کمزوری اور خاتمے میں ہوگا اگر یہ بھولے تھوڑے سیانے ہو جائیں اور مذاکرات کو ناکام کرنے کی بجائے ہر صورت انہیں کامیابی کی طرف لے جائیں تو وہ ایک دوسرے کی سیاسی زندگی کے ضامن بن سکتے ہیں اور اگر ایک دوسرے سے دست و گریباں رہے اور بالآخر ایک فریق ہار گیا تو بھی دوسرا فریق نہیں جیتے گا اصل میں وہ ایک تیسرے فریق کو مضبوط کر رہا ہوگا۔
مرحوم و مغفور بابائے جمہوریت نوابزادہ نصراللہ خان کہا کرتے تھے کہ جمہوریت میں کوئی رکاوٹ یا خرابی آجائے تو اسکا علاج مزید جمہوریت ہے اگر اسی اصول کو مدنظر رکھا جائے تو مذاکرات ناکام ہونے کا علاج مزید مذاکرات میں ہے اگر جنگوں کا اختتام مذاکرات سے ہو سکتا ہے تو سیاسی اختلاف کاکیوں نہیں؟
مذاکرات کی ناکامی کی اصل وجہ نون اور انصاف دونوں کی سیاسی پوائنٹ اسکورنگ ہے نہ ان میں مصالحت کا رنگ نظر آرہا ہے اور نہ ہی ایک دوسرے کے لئے لچک ہے ۔اس ادنیٰ طالبعلم کی رائے میں ان دونوں فریقوں کی سیاسی زندگی کا انحصار مذاکرات کی کامیابی میں ہے۔
قومی اتحاد اور پیپلزپارٹی میں مذاکرات ناکام ہوئے تو مارشل لا لگ گیا ۔ بینظیر بھٹو اور نواز شریف میں صلح نہ ہوئی ایک دوسرے کے خلاف صف آرا رہے نتیجہ کیا نکلا؟ تیسرے فریق نے مارشل لا لگا دیا۔ ہم ابھی تک خوش قسمت ہیں کہ شدید سیاسی محاذ آرائی کے باوجود یہاں مارشل لا نہیں لگا وگرنہ اہل سیاست جس طرح لڑ رہے ہیں جس طرح عدلیہ اور فوج کی لڑائی کروانا چاہتے ہیں یا جس طرح شہروں کا محاصرہ کیا جاتا ہے اورنونی، عمرانیوں کوہلکی سی رعایت ملنے پر ناک بھوں چڑھاتے ہیں ،یہ صرف مخالف کے دشمن نہیں یہ اپنے ہی پائوں پر کلہاڑیاں مار رہے ہیں ،
دونوں فریقوں کی سیاست اور زندگی بچانے کا واحد راستہ مذاکرات کی کامیابی ہے کمزور معاہدہ بھی ہوجائے تو یہ دونوں کے بچائو کا راستہ بنائے گا۔ صلح حدیبیہ کو مسلمانوں کے لئے کمزور معاہدہ تصور کیا گیا لیکن اسی معاہدے نے فتح مکہ کی راہ ہموار کی۔ تحریک انصاف کو کمزور معاہدہ یا ہلکا پھلکا ریلیف بھی ملے تو لے لینا چاہئے آج کی مصلحت کل کی فتح بن سکتی ہے اور آج کی پیشکش کو مسترد کرنا مستقبل کی خود کشی کا پیش خیمہ ہوسکتا ہے!!
ooh landay k danish war qoom ko appni trha chtya mat sahmaj k sehasi partiya tumhari aqawo ki bat sahm jai us ko face saving dy kar khud ek doosre ko qabool kar ly sari fasad ki jar tumhare aqa hai un ko kaho idaro se sehasat se appni madakhlat khatam kar dy sub thik hu jai ga asal hal ye hai qoom or mulk ki taraqi ka
اس موٹے گینڈے نے کبھی کوئی حق کی بات کی ہے تو بتائے۔۔
ان جیسے بے غیرتوں کیوجہ سے ہی ہندوستان ساری عمر غلام رہا ہے اور اسے کوئی مسلہ نہیں کہ پاکستان بھی تا قیامت غلام ہی رہے۔
جرنیلوں کے اس پالتو دشمن اناج پیڈو کا اپنے کالموں میں عمران کے لیے روزانہ کی بنیاد پر نئی نئی تجاویز لانے کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ عمران جیت چکا ہے اور یہ جرنیل بری طرح شکست کھا چکے ہیں . اور اب انہی ہارے ہوئے جرنیلوں کے کہنے پر پیڈو ان کے لیے عمران سے ڈیل کی بھیک مانگتا پھر رہا ہے
برطانوی سائنسدان سر آئزک نیوٹن (1642ء تا 1727ء) کو یہ منفرد اعزاز حاصل ہے کہ اس نے قدرت کا یہ پوشیدہ راز پا لیا کہ ہر عمل کا ردّعمل ہوتا ہے۔ سائنس کی دنیا میں اب اسے نیوٹن کا تیسرا قانون کہا جاتا ہے جس کے مطابق ہر عمل کا اس کے برابر اور مخالف ردّعمل ہوتا ہے۔ نیوٹن کا یہ سنہری قانون سیاست پر لاگو کر کے دیکھیں تو یہاں بھی ہر عمل کا اس کے ہی برابر سیاسی ردّعمل ہوتا ہے جس طرح لالی وڈ کی پنجابی دنیا میں جس دن سلطان راہی تاریک راہوں میں مارا گیا اسی روز مصطفیٰ قریشی زندہ ہوتے ہوئے بھی مرگئے تھے جب ایکشن ہی نہ رہا ری ایکشن کیسا؟
جب ہیرو ہی دنیا سے اٹھ گیا تو ولن اکیلا کیا کرے گا؟۔ پاکستانی سیاست میں بھی عمران خان اور شہباز حکومت کا وہی تعلق ہے جو سلطان راہی اور مصطفیٰ قریشی کا تھا آج اگر عمران کی سیاسی قوت اور مقبولیت ختم ہوتی ہے یا بہت کم ہو جاتی ہے تو شہباز حکومت کی سرے سے کوئی اہمیت ہی نہیں رہے گی۔ شہباز حکومت اسی وقت تک مضبوط ہے جب تک عمران خان اپنی سیاسی طاقت اور مقبولیت پر قائم و دائم ہے اس مثال کو مزید سمجھنے کے لئے یہ تاریخی واقعہ بیان کیا جاسکتا ہے جس دن نون لیگ نے لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس قیوم کے ذریعے بینظیر بھٹو کو نااہل کیا تھا اور سزائیں سنائی تھیں اسی دن تقدیر نے نواز شریف کے اقتدار پر بھی سرخ دائرہ لگا دیا تھا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ یہی بات نواز شریف کو اس وقت ان کے منہ پر بھی بتا دی گئی تھی کہ بینظیر بھٹو کی سیاست کا خاتمہ آپکی سیاست کو بھی زوال پذیر کر دے گا کیونکہ ہر عمل کا ردّعمل ہوتا ہے۔ اہل اقتدار سمجھتے ہیں کہ ہم مخالف کو کمزور کر لیں گے تو ہم مزید طاقتور ہو جائیں گے لیکن عملی طور پرہوتا یہ ہےکہ آپ کی مضبوطی اور آپ کی اہمیت کی اصل وجہ آپ کا سیاسی مخالف ہوتا ہے آپ خود نہیں ۔ اسی لئے کہتے ہیں کہ دنیا کے بڑے سیاستدان اپنے مخالف کو بھی مضبوط رکھتے ہیں بلکہ اسکا انتخاب بھی خود ہی کرتے ہیں اور بظاہر مخالفت کرتے ہوئے اندر سے اسے مضبوط بھی کر رہے ہوتے ہیں۔
اس ساری طویل کہانی سنانے کا مقصد یہ ہے کہ شہباز حکومت کے طوطے کی جان عمران خان میں ہے عملی طور پر شہباز حکومت عمران خان کو کمزورکرنا چاہتی ہے اور عمران خان اور انکی جماعت شہباز حکومت کو سر ے سے ہی گرانا چاہتی ہے۔ نیوٹن کے تیسرے قانون حرکت کو نہ سمجھنے والے یہ دونوں بہت بھولے ہیں اگر شہباز شریف کی کمزور حکومت گری تو عمران کے لئے مشکلات اور بڑھ جائیں گی اور اگر نون نے عمران کو کونے میں لگا دیا تو نون کی اپنی سیاسی اہمیت ختم ہو جائے گی ۔
یہ دونوں بھولے سمجھ نہیں رہے کہ انکی بقا ایک دوسرے کی مضبوطی میں مضمر ہے۔ اب اگر تو انہوں نے لڑ لڑ کر ایک دوسرے کو ختم کرنا ہے تو پھر رسم و سہراب اور سلطان راہی اور مصطفیٰ قریشی کی طرح ایک کی موت دوسرے کو خودبخود انجام تک پہنچا دے گی۔ قومی اتحاد نے فوج کے ساتھ مل کر ذوالفقار علی بھٹو کو اقتدار سے نکالا جب بھٹو کو پھانسی ہو گئی تو جنرل ضیاء الحق نے قومی اتحاد کے وزیروں کی چھٹی کروا دی تھی کیونکہ جنرل ضیاء نے قومی اتحاد کے کندھے کو استعمال کر کے بھٹو کو انجام تک پہنچایا اور جب بھٹو کو ختم کر لیا تو اس نے قومی اتحاد کی موت کا خود ہی انتظام کر دیا۔ بعض اوقات رقیب کی حفاظت بھی عاشق کی ذمہ داری بن جاتی ہے دشمن کی جان اور عزت کا تحفظ نہ کیا جائے تو خود آپ کی جان اور عزت کو بھی خطرات لاحق ہوتے ہیں۔
اگر نیوٹن کا تیسرا قانونِ حرکت درست ہے اور اگر اوپر دی گئی تاریخی اور سیاسی مثالیں درست ہیں اور اگر آج کی سیاست کے دو بڑے فریق نونی اور انصافی واقعی بھولے ہیں اور یہ نہیں سمجھ رہے کہ انکی جان اور سیاست ایک دوسرے کے اندر ہے تو پھر انجام دونوں کی کمزوری اور خاتمے میں ہوگا اگر یہ بھولے تھوڑے سیانے ہو جائیں اور مذاکرات کو ناکام کرنے کی بجائے ہر صورت انہیں کامیابی کی طرف لے جائیں تو وہ ایک دوسرے کی سیاسی زندگی کے ضامن بن سکتے ہیں اور اگر ایک دوسرے سے دست و گریباں رہے اور بالآخر ایک فریق ہار گیا تو بھی دوسرا فریق نہیں جیتے گا اصل میں وہ ایک تیسرے فریق کو مضبوط کر رہا ہوگا۔
مرحوم و مغفور بابائے جمہوریت نوابزادہ نصراللہ خان کہا کرتے تھے کہ جمہوریت میں کوئی رکاوٹ یا خرابی آجائے تو اسکا علاج مزید جمہوریت ہے اگر اسی اصول کو مدنظر رکھا جائے تو مذاکرات ناکام ہونے کا علاج مزید مذاکرات میں ہے اگر جنگوں کا اختتام مذاکرات سے ہو سکتا ہے تو سیاسی اختلاف کاکیوں نہیں؟
مذاکرات کی ناکامی کی اصل وجہ نون اور انصاف دونوں کی سیاسی پوائنٹ اسکورنگ ہے نہ ان میں مصالحت کا رنگ نظر آرہا ہے اور نہ ہی ایک دوسرے کے لئے لچک ہے ۔اس ادنیٰ طالبعلم کی رائے میں ان دونوں فریقوں کی سیاسی زندگی کا انحصار مذاکرات کی کامیابی میں ہے۔
قومی اتحاد اور پیپلزپارٹی میں مذاکرات ناکام ہوئے تو مارشل لا لگ گیا ۔ بینظیر بھٹو اور نواز شریف میں صلح نہ ہوئی ایک دوسرے کے خلاف صف آرا رہے نتیجہ کیا نکلا؟ تیسرے فریق نے مارشل لا لگا دیا۔ ہم ابھی تک خوش قسمت ہیں کہ شدید سیاسی محاذ آرائی کے باوجود یہاں مارشل لا نہیں لگا وگرنہ اہل سیاست جس طرح لڑ رہے ہیں جس طرح عدلیہ اور فوج کی لڑائی کروانا چاہتے ہیں یا جس طرح شہروں کا محاصرہ کیا جاتا ہے اورنونی، عمرانیوں کوہلکی سی رعایت ملنے پر ناک بھوں چڑھاتے ہیں ،یہ صرف مخالف کے دشمن نہیں یہ اپنے ہی پائوں پر کلہاڑیاں مار رہے ہیں ،
دونوں فریقوں کی سیاست اور زندگی بچانے کا واحد راستہ مذاکرات کی کامیابی ہے کمزور معاہدہ بھی ہوجائے تو یہ دونوں کے بچائو کا راستہ بنائے گا۔ صلح حدیبیہ کو مسلمانوں کے لئے کمزور معاہدہ تصور کیا گیا لیکن اسی معاہدے نے فتح مکہ کی راہ ہموار کی۔ تحریک انصاف کو کمزور معاہدہ یا ہلکا پھلکا ریلیف بھی ملے تو لے لینا چاہئے آج کی مصلحت کل کی فتح بن سکتی ہے اور آج کی پیشکش کو مسترد کرنا مستقبل کی خود کشی کا پیش خیمہ ہوسکتا ہے!!
Youthiye ro mat aur suno..
Youthiye Imran Khan ko Quaid e Azam se bara leader kehte hain. Youthion ko dobara aisa leader nahi mile ga. Imran khan akhri jang lar raha hai, youthion ke mutabiq na aise jang aaj tak establishment se kisine lari na kal koi lare ga.
So in essence youthion ke paas ye aakhri moqa hai haqeeqi azaadi haasil karne ka. I was just asking ke jab larne ka moqa aya hai tu tumhare pant kyun geeli hogae. Is PTI ke inquilab ke raah mein agar tum apna khoon nahin do ge tu koi doosre mulk se aakar de ga kia? Agar khud nahi asakte tu apne jawan beton ko bhejo ke azaadi ke jang ko apne khoon se tawana karein. Ye larai ke waqt youthion ne pairon mein گھنگھرو kyun pehan liye hain?!?? Hain youthiye....