سپریم کورٹ نے حراسگی کے ملزم کی نوکری سے جبری ریٹائرمنٹ کے خلاف درخواست مسترد کردی۔
سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے 9 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جاری کیا۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ دنیا میں ہر پانچ میں سے تقریباً ایک شخص کسی نہ کسی طرح کام کی جگہ حراسگی یا تشدد کا شکار ہے، اور حراسگی کا عمل خواتین کی معاشی اور پیشہ ورانہ ترقی کو محدود کرکے صنفی تقسیم کو برقرار رکھتا ہے۔ گلوبل جینڈر گیپ انڈیکس میں پاکستان 146 ممالک میں 145 ویں نمبر پر ہے۔
فیصلے میں یہ بھی کہا گیا کہ حراسگی سے متاثرہ ڈاکٹر سدرہ ظفر نے اپنے ڈرائیور کے خلاف پنجاب محتسب میں شکایت درج کرائی۔ شکایت کے مطابق، ڈرائیور محمد دین ڈاکٹر سدرہ ظفر کے حوالے سے نازیبا حرکات اور الفاظ استعمال کرتا تھا اور ڈاکٹر کی ایک مریض کے الٹرا ساونڈ کے دوران ویڈیو بنا کر بدنام کرنے کی کوشش کی۔
سپریم کورٹ نے فیصلے میں لکھا کہ پنجاب محتسب نے جرم ثابت ہونے پر ڈرائیور کو جبری طور پر نوکری سے ریٹائرمنٹ کا حکم دیا تھا، جس کے بعد گورنر پنجاب اور لاہور ہائیکورٹ نے بھی ڈرائیور کی درخواست مسترد کردی تھی۔
عدالت عظمیٰ نے قرار دیا کہ کام کی جگہ پر حراسگی ایک شخص کی خودمختاری اور عزت کو مجروح کرتی ہے۔ حراسگی کسی شخص کی غلبہ پانے کی خواہش سے جنم لیتی ہے اور اس کا تعلق کسی پوزیشن سے نہیں، بلکہ طاقت کے اظہار سے ہے۔ ڈرائیور نے چھوٹی پوزیشن پر ہونے کے باوجود اپنی جنس کی بنیاد پر طاقت کا مظاہرہ کیا۔
سپریم کورٹ نے فیصلے میں مزید لکھا کہ دنیا بھر میں عدالتوں نے کام کی جگہ پر حراسگی سے متعلق قوانین کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ سپریم کورٹ کو لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے میں کوئی بے قاعدگی یا غلطی نظر نہیں آئی، لہٰذا سپریم کورٹ اس درخواست کو مسترد کرتی ہے۔
- Featured Thumbs
- https://i.postimg.cc/028k5jmw/mansor-ali-shah.jpg
Last edited by a moderator: