
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے رواں مالی سال کے دوران پاکستان کے محصولات کی وصولی کے ہدف کو کم کرکے 12 ہزار 480 ارب روپے کرنے کا امکان ظاہر کیا ہے۔ یہ اصل ہدف 12 ہزار 970 ارب روپے سے 490 ارب روپے کم ہے۔ اس فیصلے کے پیچھے معاشی دباؤ اور محصولات کی وصولی میں مشکلات کو بنیادی وجہ قرار دیا جا رہا ہے۔
تمباکو کی صنعت کے نمائندوں نے آئی ایم ایف کے جائزہ مشن پر زور دیا ہے کہ وہ سگریٹ پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی (ایف ای ڈی) میں 25 فیصد کمی کرے اور تیسرا ٹیکس درجہ متعارف کرائے۔ انہوں نے متنبہ کیا کہ ایف ای ڈی میں تیزی سے اضافے سے ٹیکس ادا کرنے والے سگریٹ کی فروخت میں کمی آئی ہے، جس کے نتیجے میں غیر قانونی تجارت میں اضافہ ہوا ہے۔
تمباکو صنعت کے مطابق، ٹیکس وصولی 2021-22 میں 148 ارب روپے سے بڑھ کر 2023-24 میں 277 ارب روپے تک پہنچ گئی تھی۔ تاہم، جون 2025 تک یہ رقم کم ہو کر 243 ارب روپے اور 2026-27 تک مزید کم ہو کر 223 ارب روپے رہ جانے کا امکان ہے۔
فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے حکام نے خبردار کیا کہ اگر صنعت کی درخواست منظور کر لی گئی تو 50 ارب روپے کا ریونیو نقصان ہو سکتا ہے۔ انہوں نے ٹیکس ادا کرنے والے سگریٹ کے حجم میں کمی کو اسموگ میں اضافے کی وجہ قرار دیا ہے۔
آئی ایم ایف کی جانب سے محصولات کے ہدف میں کمی کا فیصلہ پاکستان کی معاشی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا گیا ہے۔ ملک کو درپیش معاشی چیلنجز، جن میں مہنگائی، بیرونی قرضوں کا بوجھ، اور محصولات کی وصولی میں مشکلات شامل ہیں، نے حکومت کو آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات میں نرمی اختیار کرنے پر مجبور کیا ہے۔
تمباکو صنعت کے نمائندوں کا کہنا ہے کہ ایف ای ڈی میں اضافے کے باعث قانونی سگریٹ کی فروخت میں کمی آئی ہے، جس سے غیر قانونی تجارت کو فروغ ملا ہے۔ انہوں نے تیسرا ٹیکس درجہ متعارف کرانے کا مطالبہ کیا ہے، تاکہ مارکیٹ میں توازن بحال کیا جا سکے اور غیر قانونی تجارت کو کم کیا جا سکے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ آئی ایم ایف پاکستان کی درخواستوں پر کس طرح ردعمل ظاہر کرتا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ محصولات کی وصولی کو بہتر بنانے کے لیے موثر اقدامات کرے، تاکہ معاشی استحکام کو یقینی بنایا جا سکے۔
عوام کی توقع ہے کہ حکومت اور آئی ایم ایف کے درمیان مذاکرات کے مثبت نتائج سامنے آئیں گے، اور ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جائیں گے۔