Kashif Rafiq
Prime Minister (20k+ posts)
سیاسی حکومتوں میں کابینہ کی توسیع ایک پیچیدہ سیاسی معاملہ ہوتا ہے ۔پارلیمان کا ہر رکن کابینہ میں شمولیت کا اہل ہوتا ہے اور اسکی خواہش ہوتی ہے کہ کسی نہ کسی طرح وزارت کا قلمدان مل جائے ، وہ اپنے حلقے کے عوام کے کام آ سکے اور خود اس کے مرتبے میں بھی اضافہ ہو، گاڑی پر قومی جھنڈا لگنا سیاستدانوں کا خواب ہوتا ہے۔ وفاقی کابینہ میں حالیہ توسیع سے حکومت کے سیاسی رنگ میں اضافہ ہوا ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف بھی مضبوط ہوئے ہیں وہ اپنے کئی وفاداروں کو کابینہ میں شامل کرکے پہلےسے بہتر سیاسی پوزیشن میں آگئے ہیں مگر اس بہتر پوزیشن میں جانے کے ساتھ اس توسیع سے کئی نئے تنازعات جنم لیں گے اور اس کے اثرات دور اور دیر تک محسوس کئے جائیں گے۔
جو سب سے بڑا تنازع سامنے آنے کا امکان ہے وہ سابق وزیر اعلیٰ اور ماضی میں عمران خان کے دست راست پرویز خٹک کی بطور مشیر برائے داخلہ شمولیت کا ہے ۔پرویز خٹک مقتدرہ کےقریب ہیں اور یہ خبر بھی ملی ہے کہ ان کی کابینہ میں شمولیت کی اولین شرط یہی تھی کہ انہیں داخلہ امور ہی کا مشیر بنایا جائے ۔طلال چودھری کی بطور وزیر مملکت کابینہ میں شرکت پر تو وزیر داخلہ محسن نقوی سے باقاعدہ مشاورت کی گئی تھی لیکن پرویز خٹک کے بارے میں انہیں اطلاع ضرور تھی مگر نہ ان سے مشاورت ہوئی اور نہ پرویز خٹک اور ان کے درمیان اختیارات کی تقسیم پر کوئی باقاعدہ گفت و شنید ہوئی۔ وزیر داخلہ کو نون لیگ کی قیادت سے بھی گلہ ہے کہ ایک وفاقی وزیر اور پنجاب حکومت کے کئی وزراء ان کا نام لے کر ان پر تنقید کرتے ہیں اور نون لیگ کی قیادت انہیں اس سے نہیں روکتی۔ ہوسکتا ہے کہ مقتدرہ اس گہری خلیج کوسنبھال لے مگر یہ معاملہ محسن نقوی کی ناراضی سے آگے بھی بڑھ سکتا ہے۔ بظاہر پہلے بھی محسن نقوی وزیر داخلہ بننے کیلئے اس شرط پر تیار ہوئے تھے کہ وہ کرکٹ بورڈ کے سربراہ بھی رہیںگے، ہوسکتا ہے کہ وہ اب وزارت سے سبکدوش ہو جائیں، اگر ایسا ہوا تو اس سے حکومت کے اندر اختلافات کا تاثر ابھرے گا اور سیاسی حکومت میں پہلا شگاف پڑ جائے گا۔
پرویز خٹک کو مرکز میں عہدہ ملنے سے علی امین گنڈا پور کے علاوہ پختونخوا کیلئے متبادل انتظامات کی تیاری ہے پچھلے دھرنے کے بعد علی امین گنڈا پور کو یہ واضح پیغام دیا گیا تھا کہ اگر اب پختونخوا سے گنڈا پور کوئی جلوس لے کر صوبے سے باہر نکلے تو پھر ان کی حکومت نہیں رہے گی۔ میرے اندازے کے مطابق اس سکیم پر کام شروع ہوگیا ہے اور پرویز خٹک شعبہ داخلہ امور میں آکر پولیس اور ایجنسیوں کے تعاون سے یہ کام کریںگے۔
شہباز حکومت کا سب سے بڑا المیہ سیاسی بیانیے کا نہ ہونا ہے۔ معاشی ترقی کے بیانیہ کا چرچا تو بہت کیا جارہا ہے مگر یہ تحریک انصاف کے سیاسی قلعے میں ابھی تک کوئی نمایاں شگاف نہیں ڈال سکا۔ کابینہ میں حالیہ توسیع میں سرے سے یہ ترجیح ہی نظر نہیں آ رہی۔
نون لیگ کا ابھی تو ہنی مون چل رہا ہے، اس کی پارٹی تنظیم بہت ہی کمزور ہو چکی ، ووٹ بینک بھی بکھر چکا دوسری طرف تحریک انصاف کا ووٹ بینک بہت مضبوط ہے گو ان کی تنظیم اور ووٹ بینک کا رابطہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ نون کا اصل امتحان ہنی مون پیریڈ ختم ہونے اور تحریک انصاف پر دباؤ کے خاتمے کےبعد ہوگا۔ اگر نون کوئی بیانیہ نہ بنا سکی اور صرف معاشی ایجنڈا بیچنے کی کوشش کی تو حشر ق لیگ جیسا ہو گا۔
جو سب سے بڑا تنازع سامنے آنے کا امکان ہے وہ سابق وزیر اعلیٰ اور ماضی میں عمران خان کے دست راست پرویز خٹک کی بطور مشیر برائے داخلہ شمولیت کا ہے ۔پرویز خٹک مقتدرہ کےقریب ہیں اور یہ خبر بھی ملی ہے کہ ان کی کابینہ میں شمولیت کی اولین شرط یہی تھی کہ انہیں داخلہ امور ہی کا مشیر بنایا جائے ۔طلال چودھری کی بطور وزیر مملکت کابینہ میں شرکت پر تو وزیر داخلہ محسن نقوی سے باقاعدہ مشاورت کی گئی تھی لیکن پرویز خٹک کے بارے میں انہیں اطلاع ضرور تھی مگر نہ ان سے مشاورت ہوئی اور نہ پرویز خٹک اور ان کے درمیان اختیارات کی تقسیم پر کوئی باقاعدہ گفت و شنید ہوئی۔ وزیر داخلہ کو نون لیگ کی قیادت سے بھی گلہ ہے کہ ایک وفاقی وزیر اور پنجاب حکومت کے کئی وزراء ان کا نام لے کر ان پر تنقید کرتے ہیں اور نون لیگ کی قیادت انہیں اس سے نہیں روکتی۔ ہوسکتا ہے کہ مقتدرہ اس گہری خلیج کوسنبھال لے مگر یہ معاملہ محسن نقوی کی ناراضی سے آگے بھی بڑھ سکتا ہے۔ بظاہر پہلے بھی محسن نقوی وزیر داخلہ بننے کیلئے اس شرط پر تیار ہوئے تھے کہ وہ کرکٹ بورڈ کے سربراہ بھی رہیںگے، ہوسکتا ہے کہ وہ اب وزارت سے سبکدوش ہو جائیں، اگر ایسا ہوا تو اس سے حکومت کے اندر اختلافات کا تاثر ابھرے گا اور سیاسی حکومت میں پہلا شگاف پڑ جائے گا۔
پرویز خٹک کو مرکز میں عہدہ ملنے سے علی امین گنڈا پور کے علاوہ پختونخوا کیلئے متبادل انتظامات کی تیاری ہے پچھلے دھرنے کے بعد علی امین گنڈا پور کو یہ واضح پیغام دیا گیا تھا کہ اگر اب پختونخوا سے گنڈا پور کوئی جلوس لے کر صوبے سے باہر نکلے تو پھر ان کی حکومت نہیں رہے گی۔ میرے اندازے کے مطابق اس سکیم پر کام شروع ہوگیا ہے اور پرویز خٹک شعبہ داخلہ امور میں آکر پولیس اور ایجنسیوں کے تعاون سے یہ کام کریںگے۔
شہباز حکومت کا سب سے بڑا المیہ سیاسی بیانیے کا نہ ہونا ہے۔ معاشی ترقی کے بیانیہ کا چرچا تو بہت کیا جارہا ہے مگر یہ تحریک انصاف کے سیاسی قلعے میں ابھی تک کوئی نمایاں شگاف نہیں ڈال سکا۔ کابینہ میں حالیہ توسیع میں سرے سے یہ ترجیح ہی نظر نہیں آ رہی۔
نون لیگ کا ابھی تو ہنی مون چل رہا ہے، اس کی پارٹی تنظیم بہت ہی کمزور ہو چکی ، ووٹ بینک بھی بکھر چکا دوسری طرف تحریک انصاف کا ووٹ بینک بہت مضبوط ہے گو ان کی تنظیم اور ووٹ بینک کا رابطہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ نون کا اصل امتحان ہنی مون پیریڈ ختم ہونے اور تحریک انصاف پر دباؤ کے خاتمے کےبعد ہوگا۔ اگر نون کوئی بیانیہ نہ بنا سکی اور صرف معاشی ایجنڈا بیچنے کی کوشش کی تو حشر ق لیگ جیسا ہو گا۔