
پنجاب میں گزشتہ آٹھ سالوں کے دوران مقامی حکومتوں کے لیے مختص 828 ارب روپے کی رقم غائب ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔ یہ فنڈز آئینی طور پر صوبے کی 229 مقامی حکومتوں کو ملنے تھے، مگر چھ مختلف وزرائے اعلیٰ کے ادوار میں ان فنڈز کی یا تو غلط تقسیم کی گئی، یا پھر انہیں کہیں اور منتقل کر دیا گیا۔
یہ رقم عبوری صوبائی مالیاتی کمیشن (PFC) کے تحت تقسیم کی جانی تھی۔ یہ کمیشن 2017 میں قائم کیا گیا تھا اور اس کا کام وفاقی حکومت سے موصول ہونے والے فنڈز اور صوبائی محصولات کو یکجا کرکے ان کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنانا تھا، بالکل اسی طرح جیسے قومی مالیاتی کمیشن (NFC) کام کرتا ہے۔
PFC کے تحت قائم ہونے والا صوبائی کنسولیڈیٹڈ فنڈ (PCF) ایک مخصوص فارمولے کے تحت مقامی حکومتوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ 62.5 فیصد حصہ پنجاب حکومت خود رکھتی ہے، جبکہ باقی 37.5 فیصد ڈسٹرکٹ ایجوکیشن اتھارٹیز، ڈسٹرکٹ ہیلتھ اتھارٹیز، مقامی حکومتوں اور یونین کونسلز کے درمیان تقسیم ہونا ہوتا ہے۔
https://twitter.com/x/status/1899012386972951024
2017 میں صوبائی کنسولیڈیٹڈ فنڈ (PCF) کی کل مالیت تقریباً 1.9 کھرب روپے تھی۔ حکومتی فارمولے کے مطابق، مقامی حکومتوں کے لیے 90 ارب روپے مختص کیے جانے تھے، مگر حقیقت میں صرف 36.82 ارب روپے فراہم کیے گئے، جس کے نتیجے میں 45 ارب روپے کا فرق پیدا ہوا۔
معاملہ صرف پہلے سال تک محدود نہیں رہا بلکہ ہر سال مقامی حکومتوں کو ملنے والی رقم میں کمی واقع ہوتی رہی، حالانکہ NFC ایوارڈ اور صوبائی کنسولیڈیٹڈ فنڈ کا حجم مسلسل بڑھتا گیا۔ 2023-24 کے مالی سال میں مقامی حکومتوں کے لیے 180.67 ارب روپے مختص کیے جانے تھے، مگر حقیقت میں انہیں صرف 37.64 ارب روپے دیے گئے۔ اس بنیاد پر، پنجاب حکومت کی مجموعی مالی ذمہ داری (جو ابھی تک پوری نہیں کی گئی) 828 ارب روپے بنتی ہے۔
https://twitter.com/x/status/1899076231586324941
حالیہ سرکاری رپورٹ میں پنجاب حکومت کے مالیاتی حکام نے تسلیم کیا کہ PCF سے کچھ رقم مشترکہ اخراجات جیسے کہ پنشن اور قرضوں کی ادائیگی کے لیے استعمال کی گئی۔ تاہم، اس حوالے سے کوئی واضح تفصیلات فراہم نہیں کی گئیں کہ آخر مقامی حکومتوں کے فنڈز سے یہ کٹوتیاں کیوں کی گئیں اور کس حد تک جائز تھیں۔
یہ معاملہ اس لحاظ سے اور بھی پیچیدہ ہو جاتا ہے کہ یہ مالی بے ضابطگیاں کسی ایک حکومت کے دور میں نہیں ہوئیں، بلکہ گزشتہ آٹھ سالوں میں چھ وزرائے اعلیٰ کے ادوار میں یہ عمل جاری رہا۔
یہ سوالات ابھر رہے ہیں کہ کیا حکومت نے صرف چالاک اکاؤنٹنگ کے ذریعے ان فنڈز کو دوسری جگہ منتقل کیا؟ یا پھر یہ ایک واضح آئینی خلاف ورزی ہے جہاں مقامی حکومتوں کے فنڈز کو جان بوجھ کر نظرانداز کیا گیا؟ کیا مختلف سیاسی جماعتوں کی حکومتوں نے اس معاملے پر خاموشی اختیار کیے رکھی؟
بلدیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ معاملہ صرف مالی بے ضابطگی کا نہیں، بلکہ مقامی حکومتوں کو کمزور کرنے کی ایک منظم پالیسی کا نتیجہ بھی ہو سکتا ہے۔ ایک سابق بلدیاتی افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ مقامی حکومتوں کے فنڈز کو اس طریقے سے روکنا دراصل مرکزیت پسند پالیسی کی عکاسی کرتا ہے، جس میں طاقت کو صوبائی حکومت کے ہاتھ میں رکھا جاتا ہے اور نچلی سطح کی گورننس کو نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ معاملہ شفاف تحقیقات کا متقاضی ہے، تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ یہ فنڈز کہاں گئے اور ان کا استعمال کس مد میں کیا گیا۔ اگر یہ رقم غلط طور پر کہیں اور خرچ کی گئی تو یہ ایک بڑی مالیاتی بے ضابطگی اور آئینی خلاف ورزی ہے۔
حکومت کے ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ معاملہ نیب اور آڈیٹر جنرل آف پاکستان کے دائرہ کار میں آتا ہے، اور اس پر جامع تحقیقات ہونی چاہئیں۔