وہ بالکل درست کہہ رہے ہیں، پہلے ہی ان پر بہت زیادہ بوجھ ہے۔ پارلیمنٹ اور سینیٹ کے معاملات دیکھنا، تمام بلز کو پاس کروانا، عدلیہ کو سنبھالنا، ججز اور کیسز کو ٹھیک کرنا۔ اس کے علاوہ زمین کی ترقی اور ہاؤسنگ پروجیکٹس کو بھی دیکھنا ہوتا ہے، پھر زراعت کا بھی خیال رکھنا پڑتا ہے۔
ان کو
نادرا (NADRA)، پی آئی اے (PIA)، سی پیک (CPEC)، سپارکو (SUPARCO) اور دیگر تمام محکمے بھی سنبھالنے ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ درج ذیل سول ادارے بھی فوجی افسران کے زیر انتظام چل رہے ہیں:
- او جی ڈی سی ایل (OGDCL)
- نیسپاک (NESPAK)
- ایف آئی اے (FIA)
- سی ڈی اے (CDA)
- پاکستان ریلوے (Pakistan Railways)
- اسٹیل ملز (Pakistan Steel Mills)
- پی ٹی وی (PTV)
- ایئرپورٹ سیکیورٹی فورس (ASF)
- کراچی پورٹ ٹرسٹ (KPT)
- گوادر پورٹ اتھارٹی (GPA)
- پاکستان میری ٹائم سیکیورٹی ایجنسی (PMSA)
- ایس آئی ایف سی (SIFC - Special Investment Facilitation Council)
- ایم ایل ون (ML-1 Railway Project under CPEC)
اس کے علاوہ کئی سابقہ اور حاضر سروس فوجی افسران کو مختلف ممالک میں
سفیر کے طور پر تعینات کیا گیا ہے:
- لیفٹیننٹ جنرل بلال اکبر – سعودی عرب میں پاکستان کے سفیر (2021-موجودہ)
- میجر جنرل محمود علی درانی – امریکہ میں پاکستان کے سفیر (2006-2008)
- لیفٹیننٹ جنرل اسد درانی – جرمنی (1994-1997) اور سعودی عرب (2000-2002) میں پاکستان کے سفیر
- وائس ایڈمرل شمعون عالم خان – تیونس (1995-1997) اور یوکرین (2002-2004) میں پاکستان کے سفیر
- میجر جنرل محمد رحیم خان – موزمبیق اور ملائیشیا میں پاکستان کے سفیر
اتنی ذمہ داریاں ہیں کہ وہ ہر جگہ موجود نہیں ہو سکتے، یہ حقیقت ہے۔
"