
استنبول: ترکی کی ایک عدالت نے اتوار کے روز استنبول کے میئر اکرام امام اوغلو کو بدعنوانی کی تحقیقات کے سلسلے میں باضابطہ طور پر گرفتار کر لیا۔ یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب حزب اختلاف کے اس مقبول رہنما کے خلاف دہشت گردی سے متعلق تحقیقات بھی جاری ہیں۔ امام اوغلو کی گرفتاری نے ترکی میں ایک دہائی سے زیادہ عرصے کے بدترین احتجاج کو جنم دیا ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق، امام اوغلو کے وکیل نے گرفتاری کی تصدیق کی۔ امام اوغلو، جو صدر رجب طیب اردوان کے سب سے بڑے سیاسی حریف ہیں، پر بدعنوانی اور ’ایک دہشت گرد تنظیم کی مدد‘ کے الزامات عائد ہیں۔ انہوں نے ہفتہ کے روز پولیس کو بتایا تھا کہ یہ الزامات ’غیر اخلاقی اور بے بنیاد‘ ہیں۔
امام اوغلو کی گرفتاری کے خلاف استنبول میں مظاہرے شروع ہو گئے، جو اب ترکی کے 81 میں سے 55 سے زیادہ صوبوں میں پھیل چکے ہیں۔ وزیر داخلہ علی یرلیکایا نے ’ایکس‘ پر لکھا کہ ہفتے کی رات مزید بڑے پیمانے پر مظاہروں کے بعد پولیس نے 323 افراد کو گرفتار کیا۔
پولیس نے استنبول میں مظاہرین پر ربڑ کی گولیوں، مرچوں کے پانی کا اسپرے اور دستی بموں کا استعمال کیا، جس کے نتیجے میں آدھی رات کو سٹی ہال میں کئی لوگ پناہ لینے پر مجبور ہو گئے۔ دارالحکومت انقرہ میں پولیس نے مظاہرین کو پیچھے دھکیلنے کے لیے واٹر کینن کا استعمال کیا، جب کہ مغربی ساحلی شہر ازمیر میں پولیس نے حکمراں جماعت اے کے پی کے مقامی دفاتر کی جانب جانے والے طلبہ کے مارچ کو روک دیا۔
مرکزی حزب اختلاف کی جماعت ریپبلکن پیپلز پارٹی (سی ایچ پی) نے امام اوغلو کی گرفتاری کو سیاسی بغاوت قرار دیا۔ پارٹی نے ایکس پر لکھا: ’کوئی مایوسی نہیں! لڑائی جاری رکھیں!‘۔ سی ایچ پی کے رہنما اوزگر اوزل نے استنبول میں بڑے پیمانے پر مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ان کی تعداد 5 لاکھ سے زیادہ ہے۔
یہ خبر ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب رائے دہندگان نے سی ایچ پی کے ابتدائی انتخابات میں 2028 کے صدارتی انتخابات کے لیے پارٹی کے امیدوار اکرام امام اوغلو کو نامزد کرنے کے لیے اپنا ووٹ ڈالا۔ پارٹی نے نہ صرف اپنے ارکان بلکہ ہر ایک کے لیے ووٹنگ کا راستہ کھول دیا ہے تاکہ امام اوغلو کے لیے بڑے پیمانے پر حمایت کا مظاہرہ کیا جا سکے، جنہیں عام طور پر صدر اردوان کو چیلنج کرنے کی اہلیت رکھنے والے واحد سیاست دان کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
امام اوغلو کو دونوں تحقیقات میں استغاثہ کے سوالات کے جوابات دینے کے لیے عدالت لے جایا گیا تھا۔ میڈیا رپورٹس اور ان کی قانونی ٹیم کے مطابق، پہلی پوچھ گچھ شام 7:30 بجے شروع ہوئی، جب کہ دوسری پوچھ گچھ کچھ دیر بعد شروع ہوئی اور صبح 7:30 بجے ختم ہوئی۔
اے ایف پی کے نامہ نگار نے بتایا کہ پولیس نے عدالت کے ارد گرد سخت حفاظتی حصار قائم کر رکھا ہے، جہاں ایک ہزار کے قریب مظاہرین کھڑے ہو کر نعرے بازی کر رہے ہیں۔
امام اوغلو کی گرفتاری اور اس کے نتیجے میں ہونے والے مظاہرے ترکی کی سیاسی صورتحال کو مزید پیچیدہ بنا سکتے ہیں۔ امام اوغلو کو حزب اختلاف کا ایک اہم رہنما سمجھا جاتا ہے، اور ان کی گرفتاری سے حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان تناؤ میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آیا یہ بحران ترکی کی سیاسی استحکام کو متاثر کرے گا یا نہیں۔