
وزیر دفاع خواجہ آصف نے ایک حالیہ انٹرویو میں یہ تسلیم کیا ہے کہ 1980 کی دہائی میں سوویت افغان جنگ میں پاکستان کی شمولیت ایک سنگین غلطی تھی، جس کے دور رس اثرات آج تک محسوس ہو رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس جنگ کا حصہ بننے سے پاکستان میں جہادی نظریات اور تربیت کا آغاز ہوا اور مغرب کے ذریعے مسلط کیے گئے جہاد نے پاکستان کی اخلاقیات اور داخلی صورتحال میں پیچیدگیاں پیدا کیں۔
ڈان نیوز کے مطابق روسی میڈیا کو دیے گئے ایک انٹرویو میں خواجہ آصف نے واضح طور پر کہا کہ پاکستان کسی بھی کشیدگی کو بڑھانے کی کوشش نہیں کر رہا اور نہ ہی وہ کسی فوجی کارروائی میں پہل کرنا چاہتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارت کی جانب سے پاکستان پر الزام تراشی کی جا رہی ہے، تاہم پاکستان کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اگر بھارت نے کسی بھی قسم کی دراندازی یا حملہ کیا تو پاکستان اپنی سرحدوں کی حفاظت کے لیے بھرپور جواب دے گا، لیکن اگر بھارت نے کشیدگی نہ بڑھائی تو پاکستان بھی فوجی کارروائی سے گریز کرے گا۔
خواجہ آصف نے مزید کہا کہ پاکستان دہشت گردی کے حوالے سے خطے کا سب سے بڑا شکار رہا ہے، اور اس کا آغاز افغان جنگ میں شمولیت کے بعد سے ہوا۔ انہوں نے اس بات کو دہراتے ہوئے کہا کہ سوویت افغان جنگ میں پاکستان کی شمولیت ایک سیاسی اور حکومتی غلطی تھی، کیونکہ یہ جنگ دو عالمی طاقتوں کے درمیان تھی نہ کہ ایک مذہبی جہاد۔
وزیر دفاع نے یہ بھی یاد دلایا کہ پاکستان نے سوویت افغان جنگ کے دوران امریکہ کو ہر ممکن مدد فراہم کی تھی اور نائن الیون کے حملوں کے بعد پاکستان نے مغربی اتحادیوں کے ساتھ دوبارہ تعلقات قائم کیے تھے۔ تاہم، انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ امریکا نے 80 اور 90 کی دہائی میں پاکستان کو تنہا چھوڑ دیا تھا اور 2021 میں افغانستان سے اس کا انخلا ملک کی سیکیورٹی صورتحال کو مزید پیچیدہ بنا گیا۔
خواجہ آصف نے کہا کہ پاکستان کی سرحدوں پر افغان باشندوں کی ایک بڑی تعداد بغیر دستاویزات کے موجود ہے، اور اب خطے میں جو کچھ ہو رہا ہے، اس کی ذمہ داری لینے کو کوئی تیار نہیں ہے۔ ان کے مطابق، پاکستان وہ ملک ہے جسے دہشت گردی کی لہر نے سب سے زیادہ متاثر کیا ہے اور اس کے نتائج سے آج بھی نبرد آزما ہے۔
یہ بیانات پاکستان کے ماضی کی پالیسیوں کی غمگین حقیقتوں کو سامنے لاتے ہیں اور ایک اہم سوال اٹھاتے ہیں کہ ماضی میں کی جانے والی سیاسی غلطیوں کا آج کے پاکستان پر کیا اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔