
اسلام آباد: بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) اور وزارت خزانہ کے درمیان جاری مذاکرات کے دوران آئی ایم ایف نے وفاقی بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی کمزور کارکردگی پر سوالات اٹھا دیے ہیں۔ ذرائع کے مطابق، آئی ایم ایف نے ایف بی آر کے ریونیو شارٹ فال پورا کرنے کے دعوؤں کو بھی مسترد کر دیا ہے۔
وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کی سربراہی میں پاکستانی وفد نے آئی ایم ایف مشن کے ساتھ ملاقات کی، جس میں نئے ٹیکس اہداف اور معاشی اصلاحات پر بات چیت ہوئی۔ ملاقات کے دوران سرکاری اداروں کے انضمام اور اخراجات میں کمی کے اقدامات پر آئی ایم ایف کو بریفنگ دی گئی۔ بریفنگ میں بتایا گیا کہ سرکاری اداروں کے انضمام اور اسامیاں ختم کرنے سے 17 ارب روپے کی بچت ہوئی ہے۔
تاہم، آئی ایم ایف نے ایف بی آر کی کارکردگی پر سوالات اٹھاتے ہوئے کہا کہ ادارے نے ریونیو کے اہداف حاصل کرنے میں ناکامی کی ہے۔ عالمی مالیاتی ادارے نے ایف بی آر کے دعوؤں کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ریونیو شارٹ فال کو پورا کرنے کے لیے مزید اقدامات کی ضرورت ہے۔
ذرائع کے مطابق، اجلاس میں سرکاری ملازمین کی رائٹ سائزنگ (حقوق کی تنظیم نو) اور گولڈن ہینڈشیک (رضاکارانہ سبکدوشی) کے منصوبوں پر بھی غور کیا گیا۔ اس سلسلے میں گریڈ 17 سے 22 تک کے 700 ملازمین اور نچلے درجے کی ہزاروں اسامیوں کو ختم کرنے کا امکان ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ غیر ضروری سرکاری ملازمین کو فارغ کرنے کے لیے سول سرونٹ ایکٹ میں ترمیم کی تجویز زیر غور ہے۔ وزارت خزانہ نے آئی ایم ایف کو بتایا ہے کہ اخراجات میں کمی کر کے ریونیو شارٹ فال کو پورا کرنے کی حکمت عملی تیار کی جا رہی ہے۔
آئی ایم ایف کے ساتھ جاری مذاکرات میں پاکستان کی معاشی اصلاحات، ٹیکس نظام کی بہتری، اور سرکاری اخراجات میں کمی جیسے اہم معاملات زیر بحث ہیں۔ آئی ایم ایف کی جانب سے ایف بی آر کی کارکردگی پر سوالات اٹھانے سے ظاہر ہوتا ہے کہ ادارے کو اپنی کارکردگی بہتر بنانے کے لیے مزید اقدامات کرنے ہوں گے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ آیا پاکستانی حکومت آئی ایم ایف کے مطالبات پر عملدرآمد کرتی ہے اور معاشی اصلاحات کے ذریعے ملک کی معیشت کو مستحکم کرنے میں کامیاب ہوتی ہے یا نہیں۔ آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کے نتائج پاکستان کی معاشی پالیسیوں اور عوامی شعبے پر دوررس اثرات مرتب کر سکتے ہیں۔