
حکومت پاکستان نے بجلی پیدا کرنے والے آٹھ خودمختار اداروں (آئی پی پیز) سے نئے معاہدوں کی منظوری دے دی ہے، جس کا مقصد بجلی کے بلوں میں کمی اور قومی خزانے پر پڑنے والے بوجھ کو کم کرنا ہے۔ تاہم، یہ سوال اب بھی باقی ہے کہ کیا ان معاہدوں سے عوام کو واقعی ریلیف ملے گا؟
آئی پی پیز کے ساتھ نظرثانی شدہ معاہدوں کی منظوری وفاقی کابینہ کی جانب سے دی گئی، جن میں جے ڈی ڈبلیو یونٹ ون، یونٹ رحیم یار خان ملز، چنیوٹ پاور، حمزہ شوگر، المعیز پاور پلانٹ، تھل انڈسٹریز اور چنار انرجی شامل ہیں۔ ان معاہدوں کی سفارش ٹاسک فورس برائے انرجی نے کی تھی۔ بتایا جا رہا ہے کہ اس فیصلے سے قومی خزانے کو سالانہ 238 ارب روپے کی بچت ہوگی، جس سے بجلی کے بلوں میں کمی کی امید کی جا رہی ہے۔
یہ پیشرفت رواں سال اکتوبر میں شروع ہونے والے معاہدوں کی نظرثانی کے عمل کا تسلسل ہے، جب حبکو پاور کمپنی، لال پیر پاور، روش پاور، صبا پاور اور اٹلس پاور کے ساتھ معاہدے دوبارہ طے کیے گئے تھے۔ اب تک کل 13 آئی پی پیز کے ساتھ نئے معاہدے کیے جا چکے ہیں۔
آئی پی پیز سے معاہدوں پر نظرثانی کا مطالبہ عوام اور صنعت کاروں کی جانب سے طویل عرصے سے کیا جا رہا تھا۔ توانائی کے ماہرین کے مطابق، سابقہ معاہدوں کے تحت حکومت آئی پی پیز سے بجلی خریدے یا نہ خریدے، انہیں کیپیسٹی پے منٹ کے تحت ادائیگی کی پابند تھی۔ یہ نظام بجلی کی پیداواری صلاحیت برقرار رکھنے کے لیے ضروری سمجھا جاتا ہے لیکن اس سے عوام پر بھاری مالی بوجھ پڑتا رہا ہے۔
ملک میں بجلی پیدا کرنے والے 101 خودمختار ادارے کام کر رہے ہیں، جن میں فرنس آئل، آر ایل این جی، پانی، کوئلہ، بیگاس، شمسی توانائی اور ہوا سے بجلی پیدا کرنے والے ادارے شامل ہیں۔ تاہم، نئے معاہدوں میں شامل آٹھ اداروں کی مجموعی پیداواری صلاحیت صرف 259 میگاواٹ ہے، جو ملک کی مجموعی 42 ہزار میگاواٹ کی پیداواری صلاحیت کا ایک معمولی حصہ ہے۔
توانائی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ بیگاس جیسے ذرائع سے پیدا کی جانے والی بجلی کی مقدار انتہائی محدود ہے، اس لیے بجلی کے بلوں میں زیادہ سے زیادہ صرف ایک روپے فی یونٹ کمی کی جا سکتی ہے۔ ماہر عافیہ ملک کے مطابق، کیپیسٹی پے منٹ کے نظام کو مکمل طور پر تبدیل کیے بغیر بجلی کے نرخوں میں نمایاں کمی ممکن نہیں۔
یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ نئے معاہدوں کا مقصد حکومت کی جانب سے عوامی دباؤ کو کم کرنا اور توانائی کے شعبے میں کی جانے والی تنقید کا جواب دینا ہے۔ تاہم، معاہدوں کی اصل افادیت اور عوامی ریلیف کا انحصار آنے والے مہینوں میں سامنے آنے والے عملی اقدامات پر ہوگا۔
- Featured Thumbs
- https://www.siasat.pk/data/files/s3/5ipppskskkssathsmuhahdy.png