آرمی ایکٹ کی شقوں کوغیرآئینی قرار نہیں دیا جاسکتا، سپریم کورٹ بار

1741241467560.png


سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل کالعدم قرار دینے کے فیصلے کے خلاف اپیلوں پر سماعت جاری ہے۔


جسٹس امین الدین کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 7 رکنی آئینی بینچ فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل کالعدم قرار دینے کے فیصلے کے خلاف اپیلوں پر سماعت کر رہا ہے۔ لاہور ہائیکورٹ بار کے وکیل حامد خان دلائل دے رہے ہیں۔


سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے تحریری معروضات عدالت میں جمع کراتے ہوئے کہا کہ سویلین کا ملٹری کورٹس میں ٹرائل نہیں ہونا چاہیے، آرمی ایکٹ کی شقوں کو مختلف عدالتی فیصلوں میں درست قرار دیا جا چکا ہے، اور ان شقوں کو غیر آئینی قرار نہیں دیا جا سکتا۔


لاہور ہائیکورٹ بار کے وکیل حامد خان نے دلائل کے آغاز میں سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے دور کا حوالہ دیا۔


جسٹس جمال مندوخیل نے حامد خان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم پرانی کہانی کی طرف نہیں جائیں گے، مرکزی سوال یہ ہے کہ کیا سویلین کا ملٹری ٹرائل ہو سکتا ہے یا نہیں۔


حامد خان نے کہا کہ آرمی ایکٹ مئی 1952 میں آیا، اور جب آرمی ایکٹ آیا، اس وقت پاکستان میں گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ نافذ تھا، جبکہ پاکستان کا پہلا آئین 1956 میں آیا، اور اس آئین میں بنیادی حقوق پہلی بار متعارف کرائے گئے۔
 

Dr Adam

Prime Minister (20k+ posts)
Saray wkeel mil ker bhee kaan idhar say pakrain yaa udhar sey, faisla jo aana hai woh sub ko pata hai.
GHQ kaa hukam Ameen uddin bari dahtaee sey parh ker suna dey gaa. Khwam-khwah awam kay tax kaa paisa kharach ho raha hai aur time alag sey berbaad ho raha hai.
 

Back
Top