آگ سے بچاؤ

saud491

MPA (400+ posts)


يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ عَلَيْهَا مَلَائِكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا يَعْصُونَ اللَّـهَ مَا أَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ ﴿٦﴾ سورة التحريم


ترجمہ

اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اس آگ سے بچاؤ جس کے ایندھن آدمی اور پتھر ہوں گے۔ جس پر درشت مزاج اور سخت گیر ملائکہ مامور ہوں گے۔ اللہ ان کو جو حکم دے گا اس کی تعمیل میں وہ اس کی نافرمانی نہیں کریں گے اور وہ وہی کریں گے جس کا ان کو حکم ملے گا۔


الفاظ کی تحقیق اور آیت کی وضاحت

احتساب کی عام منادی: پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی ازواج مطہراتؓ کے احتساب کے بعد یہ عام مسلمانوں کو جھنجھوڑا ہے کہ تم بھی اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو دوزخ کی اس آگ سے بچانے کی کوشش کرو جس کے ایندھن لوگ اور پتھر بنیں گے۔ مطلب یہ ہے کہ جب تم نے دیکھ لیا کہ پیغمبرؐ pbuh اور ان کی ازوارجؓ بھی اللہ تعالیٰ کے احتساب سے بالا نہیں ہیں تودوسروں کا کیا ذکر! ہر ایک کا فرض ہے کہ وہ اپنے کو اور اپنے اہل و عیال کو دوزخ کی آگ سے بچانے کے لیے جو کچھ کر سکتا ہے وہ اٹھا نہ رکھے۔ جب بھی دیکھے کہ ان کے اندر اللہ کی شریعت سے بے پروائی راہ پا رہی ہے فوراً اس کے سد باب کی فکر کرے۔ یہ پروا نہ کرے کہ یہ چیز اس کی طبیعت پر شاق گزرے گی اور اس کے نتیجہ میں ان کی ناراضی و بے زاری مول لینی پڑے گی۔ یہ ناگواری و بے زاری اس امر کے مقابل میں آسان ہے کہ آدمی ان کو جہنم میں جانے کے لیے چھوڑ دے اورآخرت میں اس کی مسؤلیت، جیسا کہ

کلکم راعٍ وکلّکم مسؤل عن رعیّتہٖ ( تم میں سے ہر ایک چرواہا بنایا گیا اور ہر ایک سے اس کے گلے کے بار ے میں پرسش ہونی ہے۔) [متفق علیہ ] والی حدیث میں وارد ہے، اپنے سر لے۔

آتش دوزخ کی اصلی غذا: وَّقُوْدُھَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ کے الفاظ اس آگ کے مزاج کو ظاہر کر رہے ہیں کہ اس کی اصل غذا لوگ اور پتھر بنیں گے۔ اسی ایندھن سے وہ اپنے اصلی رنگ میں بھڑکے گی۔ لوگ سے مراد ظاہر ہے کہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے اس دنیا میں اپنے آپ کو پاک نہیں کیا بلکہ انہی گندگیوں میں لتھڑے رہے جن سے پاک کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنی شریعت نازل فرمائی ۔
ْحِجَارَۃُ سے ہمارے نزدیک، جیسا کہ البقرہ کی آیت 23 کے تحت وضاحت ہو چکی ہے، وہ پتھر مراد ہیں جو اس دنیا میں شرک و کفر اور عبادت غیراللہ کی علامت کی حیثیت سے پوجے گئے۔ انہی چیزوں کو جلانے کے لیے یہ آگ پیدا کی گئی ہے تو جب یہ ایندھن اس کے ملے گا تو اس کو گویا اس کا من بھاتا کھاجا ملے گا اور وہ ھَلْ مِنْ مَّزِیْدٍ کہتے ہوئے ایک ایک چیز کو نگلے گی اور جیسا کہ فرمایا ہے لَا تُبْقِیْ وَلَا تَذَر نہ کسی چیز پر ذرا ترس کھائے گی اور ہ کسی چیز کو چھوڑے گی۔
دوزخ پر مامور فرشتوں کا مزاج: عَلَیْھَا مَآٰءِکَۃٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا یَعْصُوْنَ اللّٰہَ مَآ اَمَرَھُمْ وَیَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ۔ یعنی اس دوزخ پر جو فرشتے مقرر ہوں گے وہ نہایت درشت مزاج اور سخت گیر ہوں گے۔ ذرا کسی کے ساتھ نرمی اور مداہنت نہیں برتیں گے۔ ان کو جو حکم ملے گا سرمو اس کی خلاف ورزی نہیں کریں گے بلکہ وہی کریں گے جس کا ان کو حکم ملے گا۔
اس ٹکڑے میں ان لوگوں پر تعریض ہے جو اپنے اہل و عیال کی کسی بڑی سے بڑی غلطی پر بھی ان کو ٹوکنا محبت کے منافی سمجھتے ہیں۔ فرمایا کہ آج اگرا ن کی محبت ان کے احتساب سے تم کو روکے ہوئے ہے تو یاد رکھو کہ دوزخ پر جو فرشتے مامور ہیں وہ محبت کرنے والے نہیں بلکہ بڑے ہی درشت مزاج اور سخت گیر ہوں گے، بہتر ہے کہ ان سے سابقہ پڑنے سے پہلے پہلے تم ہی اپنے احتساب سے اپنے آپ کو بھی اور ان کو بھی جس حد تک عذاب کی گرفت سے بچانے کی کوشش کر سکتے ہو کرلو۔
لَّا یَعْصُوْنَ اللّٰہَ مَآ اَمَرَھُمْ وَیَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ۔ یعنی آج تمہیں احتساب کی جو ہدایت دی جا رہی ہے اگر تمہارے دلوں پر شاق گزر رہی ہے تو شاق گزرے دوزخ کے داروغوں پر یہ ذرا بھی شاق نہیں گزرے گی۔ وہ اللہ کے کسی حکم کی ذرا بھی خلاف ورزی نہیں کریں گے بلکہ ہر حکم کی پوری پوری تعمیل کریں گے۔





ترجمہ و تفسیر مولانا امین احسن اصلاحی




 

Mojo-jojo

Minister (2k+ posts)
جزاک اللہ - اللہ تعالیٰ اچھی توفیق سے سارے مسلمانوں کو نوازے