گزشتہ روز اسدعمر نے کاشف عباسی کو انٹرویو دیا جس میں انکا کہنا تھا کہ عمران خان کی ٹکراؤ کی پالیسیوں سے اتفاق نہیں کرتا اس لیے عہدہ چھوڑا۔
انہوں نے مزید کہا کہ 2018 کے الیکشن میں تحریک انصاف نے ایک کروڑ 68 لاکھ ووٹ لیے جب کہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ نے مجموعی طور پر سوا 2کروڑ ووٹ لیے، اس لیے سیاسی طور پریہ نہیں کہہ سکتےکہ جنہیں سوا 2 کروڑ لوگوں نے ووٹ ڈالا ان سے سیاسی مسائل حل کرنے کے لیے بات نہیں کروں گا۔
اسدعمر کا مزید کہنا تھا کہ اس صورتحال سے باہر نکلنے کیلئے عمران خان کی رضامندی ضروری ہے، میں مائنس ون کی بات نہیں کررہا، عمران خان اپنی سیاسی پوزیشن سے پیچھے ہٹ جائیں، ایک دو چیزیں چھوڑ دیں تو ان حالات سے باہر نکلا جا سکتا ہے۔
اسد عمر کے اس انٹرویو پر سوشل میڈیا صارفین نے سخت ردعمل دیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ میڈیا پر تو عمران خان کا نام لینے پر پابندی ہے، تحریک انصاف کے کسی بندے کو ٹاک شوز پر بلانے پر پابندی ہے تو پھر اسد عمر کو کیوں بلایا گیا؟ اسد عمر بار بار عمران خان کا نام لیتے رہے لیکن نہ اینکر نے انہیں روکا اور نہ ہی عمران خان کا نام سنسر کیا گیا۔
ثمینہ پاشا نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ اسد عمر کے میسج پر عمران خان نے کوئی جواب نہیں دیا تھا۔۔ لیکن ان کے انٹرویو پر ایک تفصیلی جواب کا آنا عمران خان کی ناراضی شو کرتا ہے۔ ۔ اسد عمر یہی باتیں نو مئی سے پہلے کرتے تو الگ بات تھی۔ سیاست میں ٹائمنگ بڑی اہم ہوتی ہے۔۔
فیاض شاہ کا کہنا تھا کہ میڈیا پر عمران خان کا نام لینے پر پابندی ہے۔ اسد عمر کو کاشف عباسی کے شو میں لایا گیا اور عمران خان کا نام سینسر کیے بغیر سارا پروگرام دکھایا گیا کیونکہ عمران خان کی خلاف بیانیہ بنانا مقصود تھا۔ اسد عمر کو استعمال کر کے وہ بیانیہ بنایا جا رہا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اسد عمر نے یہ تاثر دیا ہے کہ عمران خان تصادم کی سیاست کر رہے ہیں جس سے میرا ہمیشہ اختلاف تھا۔ جناب اگر آپ کا اتنا شدید نظریاتی اختلاف تھا تو عہدہ چھوڑ دیتے بلکہ پارٹی چھوڑ دیتے۔ اس مشکل وقت میں نظریہ ضرورت کے تحت پیٹھ دکھانے کے بعد آپ کو سب یاد آ رہا؟
انہوں نے مزید کہا کہ اور جن کو اب بھی اسد عمر سے ہمدردی ہو رہی ہے ان کی عقل پر صرف ماتم کیا جا سکتا ہے۔
مقدس فاروق اعوان نے لکھا کہ تحریک انصاف کا تازہ ترین اعلامیہ اسد عمر پر عمران خان کے عدم اعتماد کا اظہار کا ثبوت ہے ، اعلامیے سے واضح ہے کہ اسد عمر اب تحریک انصاف کا حصہ نہیں ہیں، ان کے کسی بیان کو پارٹی کی ترجمانی کے طور پر مت لیا جائے ۔۔۔!!!
عبداللہ نے تبصرہ کیا کہ آہ! اسد عمر آپ میں اور علیم خان میں کچھ تو فرق ہوتا، آہ! اسد عمر۔
حسان بلوچ کا کہنا تھا کہ اسد عمر کا انٹرویو تضادات اور کنفیوژن سے بھرا ہوا تھا۔اسد عمر ایسے قابل شخص کو اس حالت میں دیکھ کر افسوس ہوا۔انکو پی ٹی آئی کی موجودہ سٹریٹیجی سے اختلاف ہے وہ کونسی سٹریٹیجی ہے ؟ ابھی تا ماریں پڑ رہی ہیں گرفتاریاں ہو رہی ہیں جو پارٹی ساتھ کھڑے ہیں عتاب کا شکار ہیں۔۔
فرحان کا کہنا تھا کہ اسد عمر بطور وزیرِ خزانہ ناکام ہوا، بطور منسٹر پلاننگ ناکام رہا، بطور سیاستدان ناکام اور اب بطور خان کا وفادار ناکام ہے۔اسے چاہیے اب دوبارہ اینگرو میں نوکری کر لے۔
علی رضا نے لکھا کہ اسد عمر دوسرا فواد چوہدری ہے اور رات والے کاشف عباسی واکے شو میں جب کہ عمران خان کا نام بھی۔ نہیں لیا جاتا سینسر کیا جاتا ہے اور رات عمران خان کا نام بھی لیا گیا اور دیکھایا بھی گیا۔۔۔
یاسف نے تبصرہ کیا کہ اسد عمر کا پورا انٹرویو سنا، بہت سی ٹھیک باتیں کیں، غلط فیصلوں کی نشاندہی کی گئی اس پر متفق ہوں لیکن اسد عمر بزدلی دکھاتے ہوئے صرف تحریکِ انصاف کی غلطیاں سناتے رہے، گزشتہ 14 ماہ کے دوران تحریک انصاف پر ہونے والے ظلم کو بھول گئے جبکہ رؤف حسن کا اس انٹرویو پر ردعمل انتہائی سخت ہے
ایک سوشل میڈیا صارف کا کہنا تھا کہ اسد عمر کا پورا انٹرویو نشر ہوا اور عمران خان کا نام بھی بار بار لیا گیا جس پر ویسے پابندی ہے۔عقل والوں کے لیے اشارہ ہی کافی ہے اور قوم اتنی احمق نہیں ہے۔اسد عمر کسی کے بلاوے پر یہ سب بولنے آئے تھے۔
عمران خان کے نام پر پابندی کے باوجود اسد عمر کا کاشف عباسی شو میں بیٹھ کر عمران خان سے اختلاف کرنا صاف بتاتا ہے کہ عمران خان مخالف بیانیہ گھڑا جا رہا ہے۔ اسد عمر سے یہ امید نہیں تھی کہ وہ کبھی عمران خان مخالف بیانیہ گھڑنے میں استعمال ہوں گے مگر اللہ جہاں مخالفین کی ہر چال ناکام کر رہا ہے یہ بھی ناکام ہوگی۔
ساجد نے تبصرہ کیا کہ اسد عمر کا تحریک انصاف سے تعلق ہوتا تو میڈیا پر اسے بیٹھنے ہی نہیں دیا جاتا کیونکہ میڈیا پر تو تحریک انصاف کے کسی نمائندے کو بھی بٹھانے کی اجازت نہیں، آگے آپ سمجھدار ہیں۔؟