اسلام آباد سانحہ پر بی بی سی کی تہلکہ خیز رپورٹ

Kashif Rafiq

Prime Minister (20k+ posts)

https://twitter.com/x/status/1862382058934268126
https://twitter.com/x/status/1862385357922181423
پولیس نے لاشوں کا پوسٹمارٹم بھی نہیں کرنے دیا ہمارے پاس 55 افراد لائے گئے جنہیں گولیاں لگی تھیں درجنوں زخمی افراد نے کہا کہ ان کا نام رجسٹر میں نہ لکھا جائے کیونکہ پولیس انہیں گرفتار کر لے گی ! پمز کے ڈاکٹر کی بی بی سی سے گفتگو

https://twitter.com/x/status/1862365565467120007
یہی گتھی سلجھانے کے لیے جب بی بی سی کی ٹیم نے اسلام آباد کے پولی کلینک اور پمز ہسپتال کا رخ کیا تو معلوم ہوا کہ پولی کلینک کی انتظامیہ کی جانب سے جمعرات کو ایک بیان میں ہسپتال میں ایسے کسی فرد کی لاش لائے جانے کی تردید کی گئی جس کی ہلاکت مبینہ طور پر مظاہرین کے خلاف آپریشن میں ہوئی لیکن بی بی سی کے پاس موجود ہسپتال کے ریکارڈ کے مطابق وہاں 26 نومبر کی شام کم از کم ایسے تین افراد کی لاشیں موجود تھیں جنھیں گولیاں لگی تھیں اور ان میں سے دو کی ہلاکت بھی ہسپتال میں ہی ہوئی تھی۔

ہسپتال کے عملے نے بھی بتایا کہ ان میں سے ایک لاش بدھ تک پولی کلینک کے مردہ خانے میں ہی موجود تھی جبکہ دو لواحقین کے حوالے کر دی گئیں تھیں۔ اسی ہسپتال کے ایک ڈاکٹر نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ پولیس حکام نے انھیں میتیں ورثا کے حوالے کرنے سے بھی روکا۔ خیال رہے کہ اس سے پہلے بعض ورثا کی جانب سے بھی یہ بیان سامنے آیا تھا کہ میتیں ان کے حوالے نہیں کی جا رہیں۔

اسی بارے میں بی بی سی نے وفاقی وزیرِ اطلاعات عطا تارڑ سے بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ پولیس یا قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے ’مظاہرین پر فائرنگ نہیں کی گئی۔ فائرنگ کی گئی ہوتی تو لاشوں کا پوسٹ مارٹم بھی موجود ہوتا۔‘

تاہم پولی کلینک کے ہی طبی عملے کے دو اہلکاروں نے بی بی سی کو بتایا کہ انھیں ’پولیس نے لاشوں کا پوسٹ مارٹم کرنے سے روکا تھا۔‘

پمز ہسپتال کی بات کی جائے تو ہسپتال کی انتظامیہ کی جانب سے ریکارڈ تک رسائی نہیں دی گئی تاہم بی بی سی کی معلومات کے مطابق وہاں تحریکِ انصاف کے دو کارکنوں کی لاشیں لائی گئی تھیں جن کا تعلق شانگلہ اور مردان سے تھا اور ان کے ورثا لاشیں ہسپتال سے لے جا چکے ہیں۔
منگل کو گولیاں لگنے سے ہلاک ہونے والے ان پانچ افراد میں سے چار کی لاشیں تو اب ہسپتالوں میں موجود نہیں لیکن بی بی سی کو وہاں پاکستان تحریک انصاف کے احتجاج کے بعد لائے جانے والے متعدد ایسے زخمی زیر علاج ملے جنھی گولیاں لگی تھیں۔
بی بی سی کو پولی کلینک میں کم از کم تین ڈاکٹروں نے بتایا کہ شام سے ہی درجنوں کارکنان ہسپتال لائے گئے جنھیں گولیاں لگی تھیں۔ ’ہمارے پاس کم از کم 45 اور 55 کے درمیان ایسے شہری لائے گئے جنھیں گولیاں لگی تھیں۔‘

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے حکومتی وزیر عطا تارڑ نے ان الزامات کو پاکستان تحریک انصاف کا پراپیگنڈہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر پولیس یا رینجرز کی جانب سے گولیاں مارنے کے ثبوت موجود ہیں تو پی ٹی آئی ثبوت لائے۔ انھوں نے یہ الزام بھی عائد کیا کہ پی ٹی آئی کے کارکنان کے پاس جدید اسلحہ موجود تھا اور یہ کہ مظاہرین نے بڑی تعداد میں پولیس اور رینجرز کے اہلکاروں کو زخمی کیا اور ہلاکتیں بھی ہوئیں۔

’میرے کانوں سے وہ ساری چیخیں ختم ہی نہیں ہو رہیں‘

پولی کلینک میں ایسے ہی ایک زخمی کے ساتھ ان کی اہلیہ سمعیہ (فرضی نام) بھی موجود تھیں جو منگل کی شب جناح ایوینیو پر پیش آنے والے واقعات کی عینی شاہد بھی تھیں۔

’صرف چیخیں تھیں۔ بس۔ صرف چیخیں! ہر بندہ اپنی جان بچانے کے لیے بھاگ رہا تھا۔‘

یہ رات نو بجے کے قریب وہ لمحہ تھا جب سمعیہ کو اچانک فائرنگ کی آواز آئی اور پھر ہر طرف چیخ و پکار شروع ہو گئی۔ وہ جناح ایوینیو پر اسی فلائی اوور کے نیچے گاڑی میں بیٹھی اپنے شوہر کی منتظر تھیں جو چند منٹ پہلے پاکستان تحریک انصاف کے جلسے میں شرکت کے لیے پہنچے تھے۔

’میں نے سوچا یہ آنسو گیس کی شیلنگ والی فائرنگ ہو گی۔ لوگ بھاگ رہے تھے۔ پھر مجھے اپنے شوہر نظر آئے۔ وہ دونوں ہاتھ سڑک پر رکھے گھٹنوں کے بل ایسے بیٹھے ہوئے تھے۔ میں ان کی طرف بھاگی۔ ہر طرف فائرنگ ہو رہی تھی۔‘

جب سمعیہ، بی بی سی کو یہ بتا رہی تھیں، تو وہ اور ان کی بہن ماسک پہنے اسلام آباد کے ایک ہسپتال کے کمرے میں بیٹھی تھیں۔ ان کے سامنے بیڈ پر ان کے شوہر تھے جن کے کندھے پر گولی لگی اور چند گھنٹے قبل ہی ان کی سرجری کی گئی تھی۔

’وہ قیامت تھی، جیسے جنگ ہو رہی ہو۔ میرے ہاتھوں پر ان (شوہر) کا خون ہی خون تھا۔ میرے کانوں سے وہ ساری چیخیں ختم ہی نہیں ہو رہیں۔‘

’میں اب کیسے آپ سے کھل کر بات کروں؟‘ یہ کہتے ہوئے سمعیہ کے ہاتھ کپکپا رہے تھے اور ان کے چہرے پر لگا ماسک آنسوؤں سے نم ہو گیا تھا۔

’چلیں سب باہر جائیں‘، یہ وارننگ پمز میں تعینات سکیورٹی عملے کے ایک اہلکار نے دی۔ وہ یہاں ایک وارڈ میں ڈیوٹی پر تعینات ہیں اور اس وقت جب ہم یہاں زیرِ علاج پی ٹی آئی کے ایک کارکن سے بات کر رہے تھے، وہ بار بار اندر آ کر ہماری باتیں سننے کی کوشش کر رہے تھے۔

جب ہم پمز پہنچے تو ہر طرف سکیورٹی کے غیر معمولی اقدامات تھے۔ وارڈز، ایمرجنسی رومز اور باہر کے دروازوں پر رینجرز اور پولیس کے اہلکار موجود تھے۔ ہسپتال میں داخل ہونے کے لیے پوچھ گچھ کی جا رہی تھی جبکہ وارڈز میں اگر پاکستان تحریک انصاف کے زخمی کارکنوں سے بات کرنےکی کوشش کی جاتی تو عملہ اس پر نظر رکھ رہا تھا۔

بی بی سی کو ہسپتال کے احاطے میں ایک سینیئر پولیس آفیسر نے ایک اے ایس پی سے ملوایا جن کے بارے میں بتایا گیا کہ ان کے ماتھے پر گولی لگی تھی۔ پمز میں ہی بی بی سی کو ایک اور پولیس اہلکار بھی ملا جس پر مظاہرین کے پتھراؤ کی وجہ سے چہرے پر چوٹیں آئیں۔

تاہم یہیں بی بی سی نے کم از کم چار ایسے زخمیوں سے ملاقات کی جن کا کہنا تھا کہ انھیں جسم کے مختلف حصوں میں دو، دو گولیاں لگی تھیں۔ یہ افراد پنجاب اور خیبرپختونخوا کے مختلف علاقوں سے پی ٹی آئی کے احتجاج میں شامل ہونے کے لیے آئے تھے۔

ان میں سے ایک زخمی تکلیف سے کراہ رہے تھے اور صرف اتنا بتا سکے کہ ان کے پیٹ اور کندھے میں گولی لگی ہے۔ ایک اور زخمی نے بتایا کہ انھیں شام پانچ بجے کے قریب ایکسپریس وے پر ہونے والی فائرنگ کے دوران دو گولیاں لگیں۔ انھوں نے بتایا کہ ان سے پہلے وہیں موجود ایک اور کارکن کو بھی گولی لگی تھی۔

’میں ایکسپریس وے پر تھا۔ اچانک فائرنگ شروع ہوئی اور میرے سامنے کھڑے آدمی کے سر میں گولی لگی۔‘ انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’میں نے خود اسے اپنے سامنے مرتے ہوئے دیکھا۔ اس کے بعد اگلی دو گولیاں مجھے لگیں۔‘

پمز میں ہی موجود پی ٹی آئی کے ایک اور زخمی کارکن امین خان (فرضی نام) نے بتایا کہ شام پانچ بجے کے بعد فائرنگ کا سلسلہ وقفے وقفے سے جاری تھا۔

’میں ربڑ کی گولیوں کی بات نہیں کر رہا، اصلی گولیوں کی بات کر رہا ہوں۔ میں نے خود اپنے ہاتھوں سے درجن بھر زخمی لوگوں کو ایمبولینس میں ڈالا اور یہاں اس ہسپتال میں پہنچایا۔ آج یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ ان کے پاس زخمی نہیں ہیں؟‘

امین خان ہم سے بات کرنے کے لیے بار بار آکسیجن ماسک اتارتے۔ انھوں نے بتایا کہ رات نو بجے کے بعد جب فائرنگ ہوئی تو انھیں دو گولیاں لگیں۔ ’میں جب گھر سے نکلا تھا تو مجھے پتا تھا کہ یا تو عمران خان کو واپس لائیں گے یا گولی کھائیں گے۔‘

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے پولی کلینک اور پمز کے ڈاکٹرز نے کارروائی کے خدشے کی وجہ سے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ وہ اس بارے میں بات نہیں کر سکتے تاہم ایک ڈاکٹر نے آپریشن کی رات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ انھوں نے ’آج تک ایک رات میں اتنی سرجریز نہیں کی ہیں، جتنی آپریشن کی رات کی گئیں۔‘
پولی کلینک میں ایک ڈاکٹر نے کہا کہ ’بعض زخمی اس قدر تشویشناک حالت میں آئے کہ انھیں انیستھیزیا دینے کا انتظار کرنے کی بجائے ہمیں سرجریز شروع کرنی پڑیں۔ بہت سے مریض ایسے تھے جن کا خون بہت زیادہ بہہ چکا تھا۔‘
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ایک اور ڈاکٹر نے کہا کہ ’ہمارے پاس رش اس قدر زیادہ تھا کہ ہم نے ایک بیڈ پر دو دو سرجریز کیں اور گولیاں نکالی ہیں۔ جو میں نے رات کو یہاں دیکھا، وہ میں کبھی بھول نہیں سکوں گی۔‘
ڈاکٹروں کے ان بیانات پر جب بی بی سی نے وزیرِ اطلاعات عطا تارڑ سے سوال کیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’میرے خیال میں کچھ میڈیکل پروفیشنلز واضح طور پر اپنی سیاسی وابستگی ظاہر کر چکے ہیں۔ ایک ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن ہے جو پی ٹی آئی سے منسلک ہے سو میں نہیں جانتا کہ آپ کن ڈاکٹرز کی بات کر رہی ہیں لیکن میں اس بات کی ضرور تصدیق کر سکتا ہوں کہ میڈیکل سپرٹنڈنٹ، ہسپتال کے انچارج اور وزارتِ صحت نے اس بارے میں تحریری معلومات جاری کی ہیں اور انھوں نے واضح طور پر اس کی تردید کی ہے۔‘

 
Last edited by a moderator:

انقلاب

Chief Minister (5k+ posts)
lol, no evidence of 100s dead


traitors or enemies of pakistan kee lashon ke khwahish adhoree he reh gaee
عمران خان چول تھا جو تین سال میں ہر نوتھیے اور اس کے گھر والے کی گردن نہیں مار کے گیا۔ یہاں ہر ایک فوجی اور نوتھیے کی کھال چوک میں ٹوکے کے ساتھ اتارنی چاہیے اور ان کی گھر والیوں کی منڈیوں میں بولیاں لگانی چاییں۔بحرحال وہ وقت بھی آنے والا ہے
 

Back
Top