Kashif Rafiq
Prime Minister (20k+ posts)
گیارہ سالہ حمیرا بی بی کے والدین کی طرف سے عدالت سے رجوع کر کے ایف آئی آر کا حکم ہونے کے باوجود پولیس پرچہ درج کرنے سے انکاری
ایک گھر میں بچوں کی نگہداشت کے لئے رکھے جانے والی لڑکی پر اس کے مالکان کی طرف سے زیور اور پیسے لیکر فرار ہونے کا الزام اور ایف آئی آر درج جبکہ لڑکی کے والدین کا کہنا ہیکہ لڑکی کو مالکان کی طرف سے اغوا کیا گیا ہے۔ عدالت میں پیش کی جانے والی ایک آڈیو ریکارڈنگ سے والدین کے دعوٰی کو تقویت ملتی ہے۔
حمیرا بی بی کے والدین صادق حسین اور صغری بی بی نے حقائق سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ہماری بیٹی کو گھر میں نوکری دینے کے بہانے اغوا کیا گیا ہے۔14 اگست سے ہماری بیٹی حمیرا کی کوئی خبر نہیں ہے۔ اسلام آباد پولیس میری بیٹی کے اغوا کا مقدمہ درج کرنے سے انکاری ہے۔
حمیرا کے والد نے بتایا کہ میں مزدور ہوں اور کبھی کبھار ریڑھی پر کباڑ اکٹھا کرنے کا کام کرتا ہوں۔ بنی گالہ میں ایک گھر میں مزدوری کرنے کے دوران گھر کی مالکن نے میری بیٹی کو گھر میں ملازمہ رکھنے کی پیشکش کی جس پر میں نے اپنی بیٹی کو ان کے گھر بطور ملازمہ چھوڑ دیا۔صادق حسین نے بتایا کہ اس گھر کے مالکان کا دوسرا گھر سیکٹر جی نائن 4 میں ہے۔ اور حمیرا کو بھی وہاں منتقل کر دیا گیا اور وقتاً فوقتاً لاتے لے جاتے تھے۔ لیکن 14 اگست کے بعد میری بیٹی سے نہ فون پر بات ہوئی اور نہ ملاقات۔ اس دوران مجھے ایمرجنسی میں مظفر گڑھ جانا ہوا اور پھر یکم ستمبر کو پولیس نے ہمارے گھر ریڈ کی اور میرے بیٹے مجاہد حسین کو حراست میں لے لیا جسے بعد میں عدالت کے حکم پر چھوڑ دیا گیا۔
اس کے بعد ہمیں معلوم ہوا کہ حمیرا کے خلاف چوری کی ایف آئی آر درج کرائی گئی ہے۔ ہم امجد گل کے گھر حمیرا سے ملنے گئے تو ان کی بیوی حرا رضوان نے کہا کہ حمیرا ان کے گھر سے چوری کر کے ہمارے پاس آ گئی ہے۔ صادق حسین نے حقائق کے ساتھ ایک وائس ریکارڈنگ شئیر کی جس میں یہ صاف سنا جا رہا ہے کہ امجد حسین کی بیوی حمیرا بی بی کی والدہ کو یہ کہہ رہی ہیں کہ آپ ہماری چیزیں (چھ تولہ سونا اور تین لاکھ کیش) واپس کر دیں تو ہم بچی واپس کر دیں گے۔
حمیرا کے والدین نے بتایا کہ پولیس سے بار بار تھانے جا میں داخل ہونے سے روک دیتی ہے۔پہلے 50 دن تھانے کے گیٹ پر گزارے۔ متعلقہ ایس ایس پی کو بھی درخواست دی۔ پولیس کے رویہ سے مایوس ہو کر عدالت سے رجوع کیا۔ عدالت نے پولیس کو ہماری بیٹی کے اغوا کا مقدمہ درج کرنے کا تحریری حکم جاری کیا ہے۔اس کے باوجود پولیس مقدمہ درج کرنے سے انکاری ہے۔
اس معاملے میں پولیس کا موقف جاننے کے لیے متعلقہ ایس ایچ او تھانہ کراچی کمپنی سے جب بات کی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ یہ مقدمہ تھانہ کراچی کمپنی میں درج ہی نہیں ہو سکتا۔ یہ بنی گالہ تھانے میں درج ہو گا۔ حمیرا بی بی کے والد صادق حسین کا کہنا ہے کہ تھانہ بنی گالہ والوں نے تھانہ کراچی کمپنی میں مقدمہ درج کرانے کو کہا ہے۔
امجد گل کی اہلیہ حرا رضوان کا کہنا تھا کہ ان کے شوہر “ورکنگ مین” ہیں۔ اور حمیرا بی بی کو انھوں نے چھوٹے بچوں کی دیکھ بھال کے لئے رکھا تھا لیکن ایک مہینہ بعد وہ یکم ستمبر کو شام چھ بجے کے قریب گھر سے تقریباً سات تولے زیور اور تین لاکھ نقدی لے کر فرار ہو گئی۔ ان سے جب ان کی ریکارڈنگ کے حوالے سے پوچھا گیا جس میں وہ کہہ رہی تھیں کے ہمارا سامان لا دو ہم بچی چھوڑ دیں گے، ان کا جواب تھا کہ انھیں ایسی کسی ریکارڈنگ کا علم نہیں ہے۔ مزید کہنا تھا کہ پولیس ان سے کوئی خاص تعاون نہیں کر رہی اور کوئی دلچسپی ظاہر نہیں کر رہی۔
ڈی آئی جی آپریشنز علی رضا نے بتایا ہے کہ 11 سالہ گھریلو ملازمہ حمیرا کے والدین کی طرف سے اس کے اغوا کی درخواست سے قبل حمیرا کے خلاف تھانہ کراچی کمپنی میں چوری کا مقدمہ درج ہے۔جس بچی کو مغوی بتایا جا رہا ہے وہ پہلے ہی پولیس کو چوری کے مقدمے میں مطلوب ہے۔پولیس کے اپنے طریقہ کار کے مطابق مطلوب ملزم کے اغواہ کا مقدمہ درج نہیں کیا جا سکتا
ان کا کہنا تھا کہ بچی کے اغوا کا مقدمہ درج کرنے سے قبل اس بات کا جائزہ لیا جائے گا کہ بچی اغوا ہوئی بھی ہے یا خود روپوش ہے۔دفتر ڈی آئی جی کا کہنا ہے کہ عدالت کی طرف سے مطلوب ملزمہ گیارہ سالہ حمیرا کے اغوا کا مقدمہ درج کرنے کے احکامات کو قانون کی نظر سے دیکھا جائے گا۔اور پولیس اس سلسلے میں عدالت سے مزید راہنمائی کے لیے رجوع کرے گی۔ دفتر ڈی آئی جی نے بتایا کہ یہ بات درست ہے کہ گیارہ سالہ حمیرا کو بطور ملزمہ تلاش کرنے میں پولیس واقعی سستی اور تاخیر کا شکار ہے۔اس بچی کی بطور ملزمہ تلاش کے لیے کچھ نہ کچھ کاروائی عمل میں لائی گئی ہے۔تاہم شہر میں غیر معمولی حالات کے باعث پولیس غیر معمولی حد تک مصروف رہی ہے۔اسی لیے حمیرا تک پہنچنے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔
haqaiq.com
ایک گھر میں بچوں کی نگہداشت کے لئے رکھے جانے والی لڑکی پر اس کے مالکان کی طرف سے زیور اور پیسے لیکر فرار ہونے کا الزام اور ایف آئی آر درج جبکہ لڑکی کے والدین کا کہنا ہیکہ لڑکی کو مالکان کی طرف سے اغوا کیا گیا ہے۔ عدالت میں پیش کی جانے والی ایک آڈیو ریکارڈنگ سے والدین کے دعوٰی کو تقویت ملتی ہے۔
حمیرا بی بی کے والدین صادق حسین اور صغری بی بی نے حقائق سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ہماری بیٹی کو گھر میں نوکری دینے کے بہانے اغوا کیا گیا ہے۔14 اگست سے ہماری بیٹی حمیرا کی کوئی خبر نہیں ہے۔ اسلام آباد پولیس میری بیٹی کے اغوا کا مقدمہ درج کرنے سے انکاری ہے۔
حمیرا کے والد نے بتایا کہ میں مزدور ہوں اور کبھی کبھار ریڑھی پر کباڑ اکٹھا کرنے کا کام کرتا ہوں۔ بنی گالہ میں ایک گھر میں مزدوری کرنے کے دوران گھر کی مالکن نے میری بیٹی کو گھر میں ملازمہ رکھنے کی پیشکش کی جس پر میں نے اپنی بیٹی کو ان کے گھر بطور ملازمہ چھوڑ دیا۔صادق حسین نے بتایا کہ اس گھر کے مالکان کا دوسرا گھر سیکٹر جی نائن 4 میں ہے۔ اور حمیرا کو بھی وہاں منتقل کر دیا گیا اور وقتاً فوقتاً لاتے لے جاتے تھے۔ لیکن 14 اگست کے بعد میری بیٹی سے نہ فون پر بات ہوئی اور نہ ملاقات۔ اس دوران مجھے ایمرجنسی میں مظفر گڑھ جانا ہوا اور پھر یکم ستمبر کو پولیس نے ہمارے گھر ریڈ کی اور میرے بیٹے مجاہد حسین کو حراست میں لے لیا جسے بعد میں عدالت کے حکم پر چھوڑ دیا گیا۔
اس کے بعد ہمیں معلوم ہوا کہ حمیرا کے خلاف چوری کی ایف آئی آر درج کرائی گئی ہے۔ ہم امجد گل کے گھر حمیرا سے ملنے گئے تو ان کی بیوی حرا رضوان نے کہا کہ حمیرا ان کے گھر سے چوری کر کے ہمارے پاس آ گئی ہے۔ صادق حسین نے حقائق کے ساتھ ایک وائس ریکارڈنگ شئیر کی جس میں یہ صاف سنا جا رہا ہے کہ امجد حسین کی بیوی حمیرا بی بی کی والدہ کو یہ کہہ رہی ہیں کہ آپ ہماری چیزیں (چھ تولہ سونا اور تین لاکھ کیش) واپس کر دیں تو ہم بچی واپس کر دیں گے۔
حمیرا کے والدین نے بتایا کہ پولیس سے بار بار تھانے جا میں داخل ہونے سے روک دیتی ہے۔پہلے 50 دن تھانے کے گیٹ پر گزارے۔ متعلقہ ایس ایس پی کو بھی درخواست دی۔ پولیس کے رویہ سے مایوس ہو کر عدالت سے رجوع کیا۔ عدالت نے پولیس کو ہماری بیٹی کے اغوا کا مقدمہ درج کرنے کا تحریری حکم جاری کیا ہے۔اس کے باوجود پولیس مقدمہ درج کرنے سے انکاری ہے۔
اس معاملے میں پولیس کا موقف جاننے کے لیے متعلقہ ایس ایچ او تھانہ کراچی کمپنی سے جب بات کی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ یہ مقدمہ تھانہ کراچی کمپنی میں درج ہی نہیں ہو سکتا۔ یہ بنی گالہ تھانے میں درج ہو گا۔ حمیرا بی بی کے والد صادق حسین کا کہنا ہے کہ تھانہ بنی گالہ والوں نے تھانہ کراچی کمپنی میں مقدمہ درج کرانے کو کہا ہے۔
امجد گل کی اہلیہ حرا رضوان کا کہنا تھا کہ ان کے شوہر “ورکنگ مین” ہیں۔ اور حمیرا بی بی کو انھوں نے چھوٹے بچوں کی دیکھ بھال کے لئے رکھا تھا لیکن ایک مہینہ بعد وہ یکم ستمبر کو شام چھ بجے کے قریب گھر سے تقریباً سات تولے زیور اور تین لاکھ نقدی لے کر فرار ہو گئی۔ ان سے جب ان کی ریکارڈنگ کے حوالے سے پوچھا گیا جس میں وہ کہہ رہی تھیں کے ہمارا سامان لا دو ہم بچی چھوڑ دیں گے، ان کا جواب تھا کہ انھیں ایسی کسی ریکارڈنگ کا علم نہیں ہے۔ مزید کہنا تھا کہ پولیس ان سے کوئی خاص تعاون نہیں کر رہی اور کوئی دلچسپی ظاہر نہیں کر رہی۔
ڈی آئی جی آپریشنز علی رضا نے بتایا ہے کہ 11 سالہ گھریلو ملازمہ حمیرا کے والدین کی طرف سے اس کے اغوا کی درخواست سے قبل حمیرا کے خلاف تھانہ کراچی کمپنی میں چوری کا مقدمہ درج ہے۔جس بچی کو مغوی بتایا جا رہا ہے وہ پہلے ہی پولیس کو چوری کے مقدمے میں مطلوب ہے۔پولیس کے اپنے طریقہ کار کے مطابق مطلوب ملزم کے اغواہ کا مقدمہ درج نہیں کیا جا سکتا
ان کا کہنا تھا کہ بچی کے اغوا کا مقدمہ درج کرنے سے قبل اس بات کا جائزہ لیا جائے گا کہ بچی اغوا ہوئی بھی ہے یا خود روپوش ہے۔دفتر ڈی آئی جی کا کہنا ہے کہ عدالت کی طرف سے مطلوب ملزمہ گیارہ سالہ حمیرا کے اغوا کا مقدمہ درج کرنے کے احکامات کو قانون کی نظر سے دیکھا جائے گا۔اور پولیس اس سلسلے میں عدالت سے مزید راہنمائی کے لیے رجوع کرے گی۔ دفتر ڈی آئی جی نے بتایا کہ یہ بات درست ہے کہ گیارہ سالہ حمیرا کو بطور ملزمہ تلاش کرنے میں پولیس واقعی سستی اور تاخیر کا شکار ہے۔اس بچی کی بطور ملزمہ تلاش کے لیے کچھ نہ کچھ کاروائی عمل میں لائی گئی ہے۔تاہم شہر میں غیر معمولی حالات کے باعث پولیس غیر معمولی حد تک مصروف رہی ہے۔اسی لیے حمیرا تک پہنچنے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔

اسلام آباد سے گیارہ سالہ لڑکی 50 روز سے غائب، چوری اور اغوا کے الزامات، پولیس کی مکمل عدم دلچسپی
حمیرا بی بی گیارہ سالہ حمیرا بی بی کے والدین کی طرف سے عدالت سے رجوع کر کے ایف آئی آر کا حکم ہونے کے باوجود پولیس پرچہ درج کرنے سے انکاری کورٹ آرڈر ایک گھر میں بچوں کی نگہداشت کے لئے رکھے جانے والی لڑکی پر اس کے مالکان کی طرف سے زیور اور پیسے

- Featured Thumbs
- https://i.imgur.com/RDuFYLK.jpeg