News_Icon
Chief Minister (5k+ posts)

گذشتہ سال جون میں حکومتی اداروں سے بارہا گزارش کی کہ ہمیں خدشہ ہے کہ ملک ایک مرتبہ پھر بدامنی کی طرف جارہا ہے، جنازوں کا انتظار کرنے کے بجائے بروقت اقدامات کیے جائیں۔
اگست ۲۰۲۲، دہشتگرد مالاکنڈ ڈیویژن میں پر پھیلانے لگے۔ حکومت کے ساتھ ساتھ اس مرتبہ فوج سے بھی اپیل کی کہ اس معاملہ پر کوئ پالیسی وضع کی جائے علاقے کے عوام حالات سے متعلق تشویش میں مبتلا ہیں۔ جواباً مجھے قتل کی دھمکیاں ملیں۔ وزیر داخلہ نے میرے خدشات کو پراپگینڈہ قرار دیا اور ادارے کی جانب سے میرے خلاف مہم چلائ گئی۔
میری قوم نے البتہ میرا ساتھ دیا اور ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہم نے دہشتگردی کو عوامی طاقت سے شکست دی اور انہیں سرحد پار لوٹنا پڑا۔
https://twitter.com/x/status/1691775738699993237
انہی دنوں، یعنی آگست ۲۰۲۲ میرے گھر پر اسلحہ بردار موٹر سائیکل سوار بجھوائے گئے میں چونکہ اس سے کچھ دیر پہلے شہباز گل کو دیکھنے ہسپتال چلا گیا تھا وہ گھر کی دیوار کے ساتھ ہی میرا انتظار کرتے رہے لیکن میرے دوست کی اپنے گارڈز کے ساتھ آمد کے بعد انہیں ریڈ زون کے راستے فرار کردیا گیا۔
عدالتی حکم کے باوجود تھانہ آبپارہ نے میری ایف آئ آر درج کرنے سے انکار کیا۔ آئ- ایس- آئ خیبر پختونخواہ کے مطابق ان لوگوں کو سیکٹر کمانڈر اسلام آباد بریگیڈئیر فہیم نے بھیجا تھا۔ (یاد رہے کہ یہ وہی دن تھے جب ارشد شریف کو دبئی سے نکلوایا جارہا تھا)۔اسی اثناء میں میرے گھر اور خاندان والوں کو بھی دھمکیاں موصول ہونا شروع ہوئیں کہ اس کو سمجھائں بڑی گیم میں انوالو نا ہو ورنہ زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے گا۔
ستمبر ۲۰۲۲ سی ٹی ڈی، پولیس اور دیگر اداروں نے خاندان سمیت ملک چھوڑنے کا کہا اور بتایا کہ ہم صرف دعا کرسکتے ہیں آپ کے لیے، جو آپ کو مارنا چاہتے ہیں ان سے سیکیوریٹی مہیا کرنا ہمارے لیے ممکن نا ہو شاید۔اکتوبر ۲۰۲۲ ارشد شریف کے جنازے کے بعد فیلڈنگ سیٹ تھی جس کو وہاں موجود صحافی دوستوں نے بھی نوٹ کیا۔ ارشد کے گھر سے نکل کر پختونخواہ ہاؤس پہنچا تو نا معلوم افراد نے اس کو بھی گھیر لیا۔ آدھی رات کو چیف منسٹر کے سٹاف نے وہاں سے پشاور منتقل کیا کیونکہ ان کی اطلاع کے مطابق کے پی ہاؤس بھی محفوظ نہیں تھا۔
نومبر ۲۰۲۲ میں خان صاحب پر قاتلانہ حملے کے بعد پریس کانفرنس کی تو صوبائ حکومت کو بھی دھمکی آمیز پیغامات موصول ہونا شروع ہوئے۔ میں پشاور سے ہی جلسوں میں شرکت کے لیے جاتا رہا۔ سی ٹی ڈی اور سپیشل برانچ کی جانب سے وزیر اعلی کو رپورٹ دی گئ کہ اس کو عوامی اجتماعات سے دور رکھیں قاتلانہ حملے کی روپورٹس ہیں۔ وزیر اعلی کو ادارے کی جانب سے بھی واضح پیغام دیا گیا کہ اپنے مہمان کو سمجھائیں۔ اسی دوران رجیم چینج کے بعد پہلی مرتبہ مجھ سے ڈائریکٹ بھی رابطہ کیا گیا اور تصدیق کی گئ کہ ابھی تک کی منصوبہ بندی ہماری ہی جانب سے کی گئ تھی لیکن اب ان باتوں کو بھول جائیں فریش سٹارٹ لیتے ہیں اپنی سیاست کریں لیکن جنرل باجوہ اور میجر جنرل فیصل نصیر کا نام نا لیں۔
جہاں ایک طرف میری زباں بندی کی کوشش جاری تھی وہیں ایک نئے منصوبے پر کام جاری تھا کہ جس میں میرے قتل کو حادثے کا رنگ دیا جانا تھا۔ جب اس منصوبے کا پردہ فاش کیا تو بجائے شرمندگی کے یہ پوچھ تاچھ ہونے لگی کہ آخر یہ معلومات مجھ تک کیسے پہنچیں۔ جب یہ واضح ہوگیا کہ میں نے نا ارشد شریف کے قتل کی پیروی سے پیچھے ہٹنا ہے نا حقیقی آزادی کی بات میرے لیے کوئ سیاسی نعرہ ہے تو وارننگ دی گئ کہ نہ صرف رجیم چینج کا ایک تسلسل ہے بلکہ آگے حالات کی سختی میں اضافہ ہونا ہے۔
اس دوران صوبائ حکومت کے ادارے مستقل ملک چھوڑنے پر آمادہ کرتے رہے کہ سر آپ کو پروٹیکشن مہیا کرنا ہماری بساط سے باہر ہوگا آپ اپنے خاندان کو لیکر ملک سے چلے جائیں ریاستی سطح پر آپ کو ختم کرنے کا فیصلہ ہوچکا ہے۔جنوری ۲۰۲۳ میں پشاور پولیس لائن پر حملہ کے بعد پشاور امن مارچ کا اعلان کیا تو آئ ایس آئ کی جانب سے رابطہ کیا گیا اور واضح پیغام دیا گیا کہ مارچ میں شرکت نہیں کرو اور اگر کی تو ہر قسم کے نتائج کے لیے تیار رہو۔ شرکت تو کرلی لیکن زندہ واپس کیسے آیا یہ میرا اللہ ہی جانتا ہے۔
دہشتگردی کے خلاف آواز اٹھانے پر مجھ پر دہشتگردی اور بغاوت کے نئے مقدمات درج ہوئے۔مارچ ۲۰۲۳ میں جوڈیشل کمپلیکس میں عمران خان کی پیشی کے وقت کے حالات پر قوم گواہ ہے اس کے بعد جوڈیشل کمپلیکس میں اپنی ضمانت کے لیے پیشی میری آخری پبلک اپئیرنس ہے۔ یہ وہ دن ہے جب حسان نیازی کو پہلی مرتبہ اغوا کیا گیا تھا۔ اس کے بعد ریاست نے جہاں اپنی کوششیں جاری رکھیں وہیں میری ہیڈ منی بھی دے دی۔ اپریل ۲۰۲۳ میں گلگت بلتستان میں وزیر اعلی جی بی کے ساتھ موجود تھا جب علم ہوا کے ٹارگٹ کلرز جی بی پہنچ چکے ہیں۔
سو وہاں سے فوری ایویکیوٹ کیا گیا، اس کے بعد خان صاحب نے اپنے ساتھ پیشیوں تک پر جانے یہاں تک کہ زمان پارک کے گیٹ سے باہر آنے جانے پر بھی پابندی لگا دی کیونکہ عید الفطر سے پہلے مجھے قتل کرنے کی گارنٹی دی جا چکی تھی۔ اس منصوبے کا علم آئ ایس آئ، ایم آئ کے ان افسران کو بھی تھا جو اس گیم میں شریک نہیں تھے۔ پارٹی میں خان صاحب کے علاوہ سی ایم جی بی، محمود خان، پرویز خٹک، اسد قیصر، اسد عمر، علی امین، تیمور جھگڑا، کامران بنگش وغیرہ ان تفصیلات سے واقف ہیں۔
اپریل میں سی ٹی ڈی تھانے پر ہونے والے حملے کے بعد موصول ہونے والے آڈیو میسجز جو کہ پہلے ہی یہاں شئیر کر چکا ہوں سے بھی اس بات کی تصدیق ہوئ کہ اس حملے کا اصل نشانہ سی ٹی ڈی تھانہ نہیں میں تھا۔ اس حملے کے بعد بھی جب امن کے لیے لوگوں کو متحرک کیا تو مجھ پر مزید دہشتگردی اور بغاوت کے پرچے درج کیے گئے۔ جن کو بنیاد بنا کر مئی کے پہلے ہفتے میں انتظامیہ اور پولیس پر شدید دباؤ ڈالا گیا کہ بہر صورت زندہ یا مردہ پکڑا جائے۔ اس کے متعلق بلاآخر میں نے ایک وڈیو پیغام جاری کیا۔ جس کے بعد مالاکنڈ لیویز کو اسی وقت اس حکم کے ساتھ لاہور روانہ کیا گیا کہ آپ ٹوکن حاضری دیں باقی معاملات ادارے اور پنجاب ہولیس سنبھال لے گی۔
متعلقہ فورسز کو آئ ایس آئ کے ریجنل ہیڈ کوارٹر میں زندہ یا مردہ پکڑنے اور زندہ پکڑنے کی صورت میں جیل میں ہی قتل کردینے پر بریف کیا گیا۔ میرے دعوی کی تردید کے بجائے وہ لاڈلے صحافی کہ جن سے عمران خان پر قاتلانہ حملے کے وقت بھی بیانیہ بنانے کا کام لیا گیا تھا، ان کی جانب سے یہ بیانیہ بنایا جانے لگا کہ تحریک انصاف کے ایک مقبول رہنما کو گولی مار دی جائیگی یا جیل میں زہر دیا جائیگا اور اس کا الزام ادارواں ہر لگایا جائیگا۔ اور وہ رہنما مراد سعید ہے۔ مطلب پکڑنے کی صورت میں بھی مارنا ہے اور کہیں نظر آنے کی صورت میں بھی گولی مارنی ہے لیکن دونوں منصوبوں پر عملدرآمد کے لیے پہلے مناسب بیانیہ بنانا ہے۔
ان حالات کا ادراک خان صاحب کو بھی بخوبی بلکہ ہم سے زیادہ ہی تھا اور انہوں نے سختی سے احتیاط کی تاکید کررکھی تھی چنانچہ ۹ مئی کو بھی میں اسی طرح روپوش رہا اور جس طرح باقی مواقع پر وائس نوٹ کے زریعے پبلک کال دی تھی اسی طرح ۹ مئی کے بعد تقریبا چار یا پانچ مرتبہ پارٹی کے ٹویٹر اکاؤنٹ سے پبلک کال دی۔ چونکہ سر چاہئے تھا سو ان میں سے ایک کو آڈیو لیک کہہ کر جھوٹا بیانیہ بنایا گیا کہ جس کی بنا پر ملٹری ٹرائل کیا جائے۔
یاد رہے کہ منصوبہ بندی ۹ مئی سے پہلے ہوچکی تھی اور میں ان کے متعلق صدر پاکستان اور چیف جسٹس کو گذشتہ سال خط لکھ چکا ہوں۔ بہانہ اب جو بھی ہو وجوہات دراصل یہی ہیں؛ ارشد شریف کو بچانے کی کوشش کیوں کی؟ اپنی قوم کے لیے امن کیوں مانگا؟ ہم سے ہماری زمہ داری کے متعلق سوال کیوں کیا؟ ارشد شریف کے لیے انصاف کیوں مانگا؟ حقیقی آزادی کی بات کیوں کی؟ مرو اب! میری زندگی موت کا فیصلہ تو میرے رب کا اختیار ہے لیکن ان ناموں اور ان کے مکروح چہرہ دلالوں کو میری قوم یاد رکھے۔
- Featured Thumbs
- https://i.ibb.co/NyCN1vJ/1.jpg
Last edited: