
افغانستان سے جو لوگ بارڈر کراس کر کے آتے ہیں اس میں دہشتگرد بھی ہوتے ہیں: وزیر دفاع
وزیر دفاع خواجہ آصف نے پارلیمنٹ ہائوس میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں ہونے والی حالیہ دہشت گردی واقعات کا منبع افغانستان میں اور ہمارے پاس عبوری افغان حکومت کے دن بدن بدلتے ہوئے رویے سے آپشن محدود ہوتے جا رہے ہیں۔ افغانستان کی طرف سے جب تک تحریک طالبان پاکستان کو پناہ گاہیں دینے اور سہولت کار چھوڑنے کا سلسلہ نہیں رکتا تب تک معاملہ ایسے ہی چلتا رہے گا۔
خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ کسی بھی بارڈر کی جو عالمی حیثیت ہوتی ہے اس کا احترام نہیں کیا جا رہا اس لیے ہمارے پاس افغان حکومت کیلئے آپشنز کم ہوتے جا رہے ہیں۔ افغانستان میں خود وفد لے کر گیا تھا اور افغان حکومت سے درخواست کی تھی کہ ہمسایہ ہونے کے ناطے آپ کا فرض ہے کہ یہاں سے ہونے والی دہشت گردوں کو روکیں لیکن وہاں سے دیا جانے والا حل ناقابل عمل تھا۔
وزیر دفاع بشام حملے سے متعلق کہنا تھا کہ پاکستان چینی ورکرز پر حملے کی تحقیقات کر رہا ہے اور اس میں چائنہ کی تحقیقاتی ٹیم بھی شامل ہیں اور جو دہشت گردی واقعے میں ملوث افراد کا سراغ لگائیں گی، اب تک اس معاملے میں کچھ پیشرفت بھی ہوئی ہے۔ افغانستان سے جو لوگ بارڈر کراس کر کے آتے ہیں اس میں دہشتگرد بھی ہوتے ہیں، پاکستان میں دہشتگردی حملوں کا سدباب کرنے کیلئے اقدامات کر رہے ہیں۔
خواجہ آصف نے پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے بارے بات کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ کو ایران سے گیس نہ لینے کا متبادل بھی بتانا چاہیے، ہم بین الاقوامی مارکیٹ سے مہنگی ایل پی جی خرید رہے ہیں۔ ہمارا کوئی ہمسایہ ملک ہمیں اچھے نرخوں پر گیس فراہم کرتا ہے تو اس سے گیس لینا ہمارا حق ہے، امریکہ کو ہماری معاشی صورتحال کو سمجھنا ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کا پروگرام جاری ہے جس کے اہداف پورے کیے جا رہے ہیں، عوام کو ریلیف ملنے میں ایک سے ڈیڑھ سال لگ جائے گا کیونکہ 27سو ارب کے ٹیکس کیسز زیرالتواء ہیں۔ ملک میں ہزاروں ارب کی بجلی، گیس، ٹیکس چوری کی جا رہی ہے، یہ چیزیں درست کرنے سے ہی عوام کو ریلیف مل سکتا ہے، 6 مہینوں میں عوام کو ریلیف فراہم کریں گے۔
خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ ہم نے افغانستان کا سامان بھارت بھیجنے کی اجازت دے دی ہے، ہم افغانستان کیلئے جنگیں لڑتے رہے، قربانیاں دی، وہاں سے دہشت گردی اور سمگل شدہ چیزیں آ رہی ہیں۔ بھارت کے ساتھ ہمارے تعلقات کا اپنا ایک پس منظر ہے، امید ہے کہ بھارت میں انتخابات کے بعد ہمارے تعلقات میں بہتری آئے۔