افغانستان میں قبروں کی جگہ خالی ہے

Muslimpower

MPA (400+ posts)
i_1.gif
 

WatanDost

Chief Minister (5k+ posts)
Yeah bhi ALLAH ki shan e bainiazi hai kai
Afghanoon nai jab Russia ko barbad kia tow
Duniya nai kaha YEAH Usa ki imdad aur Pakistan ki wajah sai Fateh baney.
ALLAH SWT ki GHAIRAT nai yeah gawara ba kiya.
Aur es bar
DUNIYA KO DIKHA DIA KAI LO
Sari dunya aik taraf aur MAIRI KHUDAEE AIK TARAF.
 
Fawad Digital Outreach Team US State Department


يہ بات توجہ طلب ہے کہ اس کالم کا بنيادی خيال اور نقطہ نظر بھی اتنا ہی غلط اور گمراہ کن ہے جتنی کہ وہ کہانی جس کو دانستہ محض شہ سرخی جمانے کے لیے توڑ مروڑ کے پيش کيا گيا۔


ريکارڈ کی درستگی کے لیے واضح کر دوں کہ ايڈمرل مولن نے کسی بھی موقع پر اس خيال سے خوشی يا اطمينان کا اظہار نہيں کيا کہ طالبان رمضان کے دوران اپنی سرگرميوں ميں کمی کر ديں گے۔ اس ميں کوئ شک نہيں کہ ان سے اس تاثر کے حوالے سے اظہار خيال کرنے کو کہا گيا تھا۔ ليکن انھوں نے اس کا جو جواب ديا اس کا اس حتمی نتيجے سے کوئ تعلق نہيں جس کو بنياد بنا کر يہ کالم لکھا گيا ہے۔


ان کا جواب يہ تھا


"مجھے اس بارے میں کوئ اندازہ نہيں ہے کہ تشدد اور حملوں ميں کمی واقع ہو گی يا ان ميں اضافہ ہو گا"۔


ايڈمرل مولن نے يہ تسليم کيا کہ حاليہ قاتلانہ حملوں کے سبب کسی قدر سياسی عدم استحکام موجود ہے ليکن انھوں نے يہ بھی واضح کيا کہ امريکی کمانڈرز نے قندھار ميں روزمرہ کی سيکورٹی صورت حال ميں کسی کمی کا عنديہ نہيں ديا۔



"کم ازکم کمانڈر کے نقطہ نظر سے، انھوں نے ايسا کچھ نہيں ديکھا"۔



ايڈمرل مولن کے بيان سے يہ واضح ہے کہ انھوں نے تو اس تاثر سے سرے سے اتفاق ہی نہيں کيا کہ طالبان رمضان کے مہينے میں اپنی کاروائيوں ميں کمی کر لیں گے، کالم کے دعوے کے برخلاف اس مفروضے پر خوشی يا اطمينان کے اظہار کا تو کوئ سوال ہی نہيں اٹھتا۔


کسی فريق کو فاتح قرار دينا قبل ازوقت اور غير دانشمندانہ ہے۔ جہاں تک امريکہ کا تعلق ہے تو ہمارے نزديک اس جدوجہد ميں اگر کوئ فتح ياب ہو سکتا ہے تو وہ افغان عوام ہيں اس صورت ميں کہ جب وہ محفوظ اور خوشحال ہوں۔



امريکی افواج کی جانب سے دانستہ بے گناہ شہريوں کو نشانہ نہيں بنايا جاتا کيونکہ اس عمل سے کوئ فوجی اور سفارتی اہداف بھی حاصل نہيں ہوتے اور يہ ہمارے قوانين سے متصادم بھی ہے۔


بے شمار مواقعوں پر عالمی برادری نے امريکی اور نيٹو افواج کے ساتھ دوران مقابلہ طالبان اور القائدہ کی جانب سے دانستہ بے گناہ شہريوں اور ان کے گھروں کو ڈھال بناۓ جانے کے واقعات سنے ہيں۔


امريکی افواج کی جانب سے غلطيوں کا اعتراف بھی کيا جاتا ہے، افسوس اور مذمت کا اظہار بھی کيا جاتا ہے اور فوجی آپريشن کے نتيجے ميں کسی بے گناہ شہری کی ہلاکت کی صورت ميں ذمہ داری بھی قبول کی جاتی ہے۔ کيا طالبان اور القاعدہ سے يہ توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ بھی کبھی اسی طرز عمل کا مظاہرہ کريں؟


فواد ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ


[email protected]


www.state.gov


http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall
 
Fawad Digital Outreach Team US State Department


افغانستان ميں 80 کی دہائ ميں روسی جارحيت کا امريکی اور نيٹو افواج کی موجودگی سے تقابل کرنا زمينی حقائق کی دانستہ نفی، پرلے درجے کی لاعلمی اور تاريخی حقائق کو مسخ کرنے کے مترادف ہے۔ روسی افواج کے برعکس ہم افغانستان ميں علاقوں پر قبضہ کرنے يا مقامی آباديوں پر حکومت کرنے کی غرض سے نہيں آۓ ہيں۔ بلکہ حقيقت يہ ہے کہ ہم اپنے ٹيکس دہندگان کے کئ بلين ڈالرز ترقياتی منصوبوں کی مد میں عام افغان لوگوں کے معيار زندگی کو بہتر بنانے پر صرف کر رہے ہيں تا کہ صحت، تعليم اور بنيادی ڈھانچے کی بحالی جيسے اہم شعبوں ميں مثبت تبديلی لائ جا سکے۔


افغانستان ميں جاری ترقياتی منصوبوں کے حوالے سے يو ايس ايڈ کے اعداد وشمار پر سرسری نظر ڈالنے سے ہی افغانستان کے عوام کے ساتھ ہماری طويل المدت وابستگی اور اس دعوے کی نفی ہو جاتی ہے کہ خطے ميں ہماری موجودگی علاقوں پر قبضے جمانے کی کوشش ہے۔


http://afghanistan.usaid.gov/en/home


ميں يہ بھی واضح کر دوں کہ 80 کی دہائ ميں افغانستان کی صورت حال کے برعکس، ہماری فوجی کاروائ ان واقعات کے تسلسل کا ناگزير ردعمل ہے جن ميں ہماری سرزمين پر براہراست حملہ بھی شامل ہے۔ يہی وجہ ہے کہ افغانستان ميں ہماری موجودگی کی مکمل حمايت اقوام متحدہ سميت تمام عالمی برداری نے کی ہے اور اسی بدولت کئ درجن قومیں ہمارے ساتھ شامل ہيں۔ يقینی طور پر روس کے ساتھ يہ صورت حال نہيں تھی جن کے اقدام کی ہر عالمی فورم پر مذمت کی گئ۔ بلکہ حقیقت يہ ہے کہ روسی جارحيت کے دوران افغانستان ميں روس کی موجودگی پر کڑی نقطہ چينی نے مسلسل روس کو دباؤ ميں رکھا اور يہی امر سفارتی سطح پر انھيں تنہا کرنے کا سبب بھی بنا۔


اب اگر آپ 80 کی دہائ کی صورت حال کا افغانستان کی موجودہ صورت حال سے موازنہ کريں تو يہ حقیقت توجہ طلب ہے کہ افغانستان میں ہمارے مقاصد افغانستان کے عوام اور حکومت کے علاوہ پاکستان اور دنيا کے ديگر ممالک جن ميں يورپ سے آسٹريليا، روس، چين، بھارت، مشرق وسطی اور ان تمام اسلامی ممالک سے مطابقت رکھتے ہيں جہاں القائدہ سے متعلق دہشت گردی کا خطرہ موجود ہے۔


اس وقت بھی افغانستان ميں آئ ايس اے ايف کے 43 اتحادی شراکت داروں کے علاوہ 84000 امريکی اور عالمی افواج مل کر کام کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ قريب 60 ممالک سميت بے شمار عالمی تنظيميں افغانستان اور پاکستان کو امداد مہيا کر رہی ہيں۔ افغانستان اور پاکستان سے متعلق قريب 30 خصوصی نمايندے مستقل رابطوں اور ملاقاتوں کے ذريعے پاليسی مرتب کرتے ہیں۔


يہ ممکن نہيں ہے کہ يہ تمام ممالک اور بے شمار خود مختار عالمی تنظيميں اپنے تمام تر وسائل کو بروۓ کار لاتے ہوۓ صرف اس ليے تعاون کرنے پر رضامند ہو جائيں کہ افغانستان پر قبضے کے امريکی منصوبے کو پايہ تکميل تک پہنچايا جا سکے۔

فواد ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
[email protected]
www.state.gov
http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall