حیرت اس بات کی ہے کہ کس امریکہ سے امداد کی امید ہے؟ جہاں معاشی بحران آیا کھڑا ہے۔
یہ کونسے ارسطو اور سقراط کی جانشین ہیں جنہیں ابھی تک لگ رہا ہے کہ امریکہ سے ڈالر مل جائیں گے۔
میٹا کیمپنی نے 11 ہزار ملازمین کو فارغ کردیا۔
ٹیسلا اور ٹویٹر کا مالک ایلن مسک 7 ہزار ملازمین کو فارغ کرچکا ہے۔
ایمازون کمپنی مزید 9 ہزار لوگوں کو فارغ کررہی ہے جسکے بعد اسکے کل بیروزگاروں کی تعداد 27000 ہوجائیگی جو نوکری سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔
شرع سود بڑھتی جارہی ہے تاکہ لوگ بنکوں سے پیسہ نہ نکلوا سکیں جبکہ حالیہ سگنیچر بنک کا دیوالیہ نکل گیا۔
سال پہلے تک سوپر سٹورز میں درجن بھر آرگینک انڈے کوئی 5 ڈالر کے ملتے تھے جنہیں انہتائی مہنگا سمجھا جاتا تھا۔ آج کل وہی درجن انڈے کوئی 8 یا 9 ڈالر کے مل جائیں تو لوگ شکر کرتے ہیں بلکہ سٹور میں آتے ہیں اور ختم ہوجاتے ہیں۔ اور کساد بازاری کسے کہتے ہیں کہ لوگ پیسے لیکر بیٹھے ہوتے ہیں مگر انہیں چیز ہی نہیں ملتی۔
امریکی ہاوسنگ مارکیٹ شدید تنگ ہوتی جارہی ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جو لوگ ابھی ابھی گھر لے چکے ہیں ایک ایک ملین کے انکے گھر کوئی 2 لاکھ کم پر بھی کوئی نہیں خریدے گا۔
ایک غیر یقینی کی سی کیفیت ہے جہاں لوگوں کو اندازہ ہی نہیں ہورہا کہ آخر کیا بنے گا جبکہ کوئی بیرونی دباو نہیں اور نہ ہی کوئی اسحاق ڈالر یا نیوٹرل ہے مگر اسکے باوجود طوفان سے پہلے کی ہوائیں چلنا شروع ہوگئی ہیں۔
ایسے حالات میں ایک ہی وجہ سمجھ آتی ہے کہ جنکی عقل بوٹوں میں ہے انہیں امریکی اسٹیبلشمنٹ براہراست پیسے دے رہی ہے کیونکہ پاکستان کو اگر آئی ایم ایف کا پیکج دیا جاتا ہے تو بین القوامی دباو آنے کا اندیشہ ہے۔ وہ اسلیے کہ آئی ایم ایف کیسے ایک ایسے ملک کو پیسے دے سکتا ہے جس نے اپنی ساری معاشی تریقی کو اپنے ہاتھوں سے جلا کر راکھ کردیا۔ ایسے ملک میں جہاں الیکشن تک نہیں کروائے جارہے اسے آئی ایم ایف کا پیکیج دینے کا مطلب بہت ساری تنقید کو مول لینے کے مترادف ہوسکتا ہے جبکہ خود امریکی معیشت پر تلوار لٹک رہی ہے اور سرمایہ کار پیسے نکلوارہے ہیں۔ ایسی صورت میں باقی دنیا کو نفرت کی چھوٹی سی وجہ دینا بھی خود کشی ہوگی۔
یہی وجہ ہے کہ آئی ایم ایف کوئی پیسہ نہیں دے رہا اور ویسے بھی امپورٹڈ حکومت کی خواہش ہے کہ معاشی یا کوئی دوسری ہنگامی صورت پیدا کی جائے تاکہ الیکشن نہ کروانے کا بہانہ بنایا جاسکے۔ کیونکہ اگر آئی ایم ایف کا پیکچ مل بھی گیا تو قیمتیں پھر بڑھانی پڑیں گی۔ جبکہ اگر دیوالیہ کا اعلان کرکے انہیں یہ بہانہ مل جائیگا کہ اب ہم کوئی قسط دینے کے ویسے ہی لائق نہیں اور جو ٹیکس اکٹھا ہوگا اس سے اپنی جیبیں بھری جائیں گی۔
لہزا اس بات میں حقیقت نظر آتی ہے کہ فوج کو امریکی ڈالر براہراست دیے جارہے ہیں تاکہ انکے جرنیلوں کو معاشی بدحالی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ کیونکہ اگر ان جرنیلوں کی موجیں نہ ہوں تو یہ کیوں اس حکومت کو چلنے دیں گے۔ تیل تو ویسے ہی ایران سے سمگل کرکے یہ جرنیل پورا کرتے ہیں لہزا دکھاوے کے لیے تھوڑی بہت مراعات میں تبدیلی کرکے ظاہر یہ کرتے ہیں کہ انکو بھی معیشت کی دباہی سے نقصان ہورہا ہے۔ حقیقت میں انکو براہراست ڈالر مل رہے ہیں پاکستان کی معیشت خراب کرنے کے عوض۔ اسکے لیے انکو ادارے بھی خراب کرنا پڑ رہے ہیں چاہتے ہوئے یا نہ چاہتے ہوئے۔ کیونکہ یہ ہوہی نہیں سکتا کہ ادارے چل رہے ہوں اور یہ بھی امریکی ڈالر لے سکیں۔
اس معاشی ماڈل میں اگر عوام کو کچھ چاہیے تو اسکا ایک حل تو یہ ہے کہ فوجی اداروں کا بائیکاٹ کیا جائے تاکہ کوئی فوج میں جانے والا ہی نہ بچے اور پھر ڈالر کیا فوجی بھی امریکہ سے امپورٹ کرنے پڑ جائیں یا پھر ہندوستان سے۔ اسکا کم از کم یہ فائدا تو ہوگا کہ عوام کو یہ سوچنا نہیں پڑے گا کہ اب اس فوج کے خلاف انہیں خود لڑنا ہوگا۔ مگر عارضی حل یہ ہے کہ فوج سے کوئی بھی کاروبار کرے تو ڈالر میں پیمنٹ لے جبکہ پاکستانی روپے کی قدر گر چکی ہے۔ یا پھر فوج کو لمبا چوڑا بل بناکردیں اگر واقعی اپنا کاروبار چلانا ہے۔
یہ کونسے ارسطو اور سقراط کی جانشین ہیں جنہیں ابھی تک لگ رہا ہے کہ امریکہ سے ڈالر مل جائیں گے۔
میٹا کیمپنی نے 11 ہزار ملازمین کو فارغ کردیا۔
ٹیسلا اور ٹویٹر کا مالک ایلن مسک 7 ہزار ملازمین کو فارغ کرچکا ہے۔
ایمازون کمپنی مزید 9 ہزار لوگوں کو فارغ کررہی ہے جسکے بعد اسکے کل بیروزگاروں کی تعداد 27000 ہوجائیگی جو نوکری سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔
شرع سود بڑھتی جارہی ہے تاکہ لوگ بنکوں سے پیسہ نہ نکلوا سکیں جبکہ حالیہ سگنیچر بنک کا دیوالیہ نکل گیا۔
سال پہلے تک سوپر سٹورز میں درجن بھر آرگینک انڈے کوئی 5 ڈالر کے ملتے تھے جنہیں انہتائی مہنگا سمجھا جاتا تھا۔ آج کل وہی درجن انڈے کوئی 8 یا 9 ڈالر کے مل جائیں تو لوگ شکر کرتے ہیں بلکہ سٹور میں آتے ہیں اور ختم ہوجاتے ہیں۔ اور کساد بازاری کسے کہتے ہیں کہ لوگ پیسے لیکر بیٹھے ہوتے ہیں مگر انہیں چیز ہی نہیں ملتی۔
امریکی ہاوسنگ مارکیٹ شدید تنگ ہوتی جارہی ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جو لوگ ابھی ابھی گھر لے چکے ہیں ایک ایک ملین کے انکے گھر کوئی 2 لاکھ کم پر بھی کوئی نہیں خریدے گا۔
ایک غیر یقینی کی سی کیفیت ہے جہاں لوگوں کو اندازہ ہی نہیں ہورہا کہ آخر کیا بنے گا جبکہ کوئی بیرونی دباو نہیں اور نہ ہی کوئی اسحاق ڈالر یا نیوٹرل ہے مگر اسکے باوجود طوفان سے پہلے کی ہوائیں چلنا شروع ہوگئی ہیں۔
ایسے حالات میں ایک ہی وجہ سمجھ آتی ہے کہ جنکی عقل بوٹوں میں ہے انہیں امریکی اسٹیبلشمنٹ براہراست پیسے دے رہی ہے کیونکہ پاکستان کو اگر آئی ایم ایف کا پیکج دیا جاتا ہے تو بین القوامی دباو آنے کا اندیشہ ہے۔ وہ اسلیے کہ آئی ایم ایف کیسے ایک ایسے ملک کو پیسے دے سکتا ہے جس نے اپنی ساری معاشی تریقی کو اپنے ہاتھوں سے جلا کر راکھ کردیا۔ ایسے ملک میں جہاں الیکشن تک نہیں کروائے جارہے اسے آئی ایم ایف کا پیکیج دینے کا مطلب بہت ساری تنقید کو مول لینے کے مترادف ہوسکتا ہے جبکہ خود امریکی معیشت پر تلوار لٹک رہی ہے اور سرمایہ کار پیسے نکلوارہے ہیں۔ ایسی صورت میں باقی دنیا کو نفرت کی چھوٹی سی وجہ دینا بھی خود کشی ہوگی۔
یہی وجہ ہے کہ آئی ایم ایف کوئی پیسہ نہیں دے رہا اور ویسے بھی امپورٹڈ حکومت کی خواہش ہے کہ معاشی یا کوئی دوسری ہنگامی صورت پیدا کی جائے تاکہ الیکشن نہ کروانے کا بہانہ بنایا جاسکے۔ کیونکہ اگر آئی ایم ایف کا پیکچ مل بھی گیا تو قیمتیں پھر بڑھانی پڑیں گی۔ جبکہ اگر دیوالیہ کا اعلان کرکے انہیں یہ بہانہ مل جائیگا کہ اب ہم کوئی قسط دینے کے ویسے ہی لائق نہیں اور جو ٹیکس اکٹھا ہوگا اس سے اپنی جیبیں بھری جائیں گی۔
لہزا اس بات میں حقیقت نظر آتی ہے کہ فوج کو امریکی ڈالر براہراست دیے جارہے ہیں تاکہ انکے جرنیلوں کو معاشی بدحالی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ کیونکہ اگر ان جرنیلوں کی موجیں نہ ہوں تو یہ کیوں اس حکومت کو چلنے دیں گے۔ تیل تو ویسے ہی ایران سے سمگل کرکے یہ جرنیل پورا کرتے ہیں لہزا دکھاوے کے لیے تھوڑی بہت مراعات میں تبدیلی کرکے ظاہر یہ کرتے ہیں کہ انکو بھی معیشت کی دباہی سے نقصان ہورہا ہے۔ حقیقت میں انکو براہراست ڈالر مل رہے ہیں پاکستان کی معیشت خراب کرنے کے عوض۔ اسکے لیے انکو ادارے بھی خراب کرنا پڑ رہے ہیں چاہتے ہوئے یا نہ چاہتے ہوئے۔ کیونکہ یہ ہوہی نہیں سکتا کہ ادارے چل رہے ہوں اور یہ بھی امریکی ڈالر لے سکیں۔
اس معاشی ماڈل میں اگر عوام کو کچھ چاہیے تو اسکا ایک حل تو یہ ہے کہ فوجی اداروں کا بائیکاٹ کیا جائے تاکہ کوئی فوج میں جانے والا ہی نہ بچے اور پھر ڈالر کیا فوجی بھی امریکہ سے امپورٹ کرنے پڑ جائیں یا پھر ہندوستان سے۔ اسکا کم از کم یہ فائدا تو ہوگا کہ عوام کو یہ سوچنا نہیں پڑے گا کہ اب اس فوج کے خلاف انہیں خود لڑنا ہوگا۔ مگر عارضی حل یہ ہے کہ فوج سے کوئی بھی کاروبار کرے تو ڈالر میں پیمنٹ لے جبکہ پاکستانی روپے کی قدر گر چکی ہے۔ یا پھر فوج کو لمبا چوڑا بل بناکردیں اگر واقعی اپنا کاروبار چلانا ہے۔