امہات المومنینؓ اور صحابہ کرامؓ کی توہین پر سزائیں بڑھانے کے بل پر اعتراضات عائد ۔۔توہین صحابہؓ کے مجرم کی سزا کو 3 سال سے بڑھا کر 10 سال کرنے پر کوئی اعتراض عائد نہیں کیا گیا
صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی طرف سے امہات المومنینؓ اور صحابہ کرامؓ کی توہین کے حوالے سے بل پر اعتراضات عائد اور کوڈ آف کرمنل پروسیجر ترمیمی بل 2023ء پر بھی اعتراض لگا کر واپس کر دیا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق صدر مملکت کی طرف سے سی آر پی سی ترمیمی بل 2023ء کی سیکشن 298 اے پر اعتراض عائد کیا گیا ہے، یہ بل صدر مملکت کی طرف سے واپس بھجوائے گئے 13 بلوں میں شامل ہے۔
صدر مملکت کی طرف سے ترمیمی بل کی 3 میں سے 2 ترامیم (توہین صحابہؓ کے جرم کو ناقابل ضمانت قرار دینے ، پولیس کو بغیر وارنٹ گرفتاری کرنے کے اختیارات دینے) پر اعتراض اٹھایا گیا ہے۔ ترمیمی بل میں توہین صحابہؓ کے مجرم کی سزا کو 3 سال سے بڑھا کر 10 سال کرنے پر کوئی اعتراض عائد نہیں کیا گیا۔
صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے ترمیمی بل پر آئین کے آرٹیکل 8,9,10 ، 10 اے اور 14 اے کا حوالہ دیتے ہوئے اعتراض عائد کیا گیا ہے کہ مجوزہ بل کے تحت جرم ناقابل ضمانت اور پولیس کو بغیر وارنٹ گرفتاری کا اختیار دینا پولیس کے دائرہ اختیار سے برھ کر ہیں جسے غلط مقاصد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
صدر مملکت کے مطابق اس بل کے قانون بننے کے بعد اسے شہریوں کیخلاف غلط استعمال کیے جانے کا خدشہ ہے، پارلیمنٹ کو مجوزہ بل میں پولیس کو دیئے گئے اختیارات کے غلط استعمال کے خدشات کا نوٹس لینا چاہیے۔ یاد رہے کہ توہین صحابہؓ پر سزائیں بڑھانے کا تر،ہ،ہ بل قومی اسمبلی نے 17 جنوری اور سینٹ نے 7 اگست کو منظور کیا گیا جس میں جرم ناقابل ضمانت اور پولیس کو بغیر وارنٹ گرفتاری کا اختیار دیا گیا تھا۔
امہات المومنینؓ اور صحابہ کرامؓ کی توہین پر سزائیں بڑھانے کے بل پر اعتراضات عائد ۔۔توہین صحابہؓ کے مجرم کی سزا کو 3 سال سے بڑھا کر 10 سال کرنے پر کوئی اعتراض عائد نہیں کیا گیا
صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی طرف سے امہات المومنینؓ اور صحابہ کرامؓ کی توہین کے حوالے سے بل پر اعتراضات عائد اور کوڈ آف کرمنل پروسیجر ترمیمی بل 2023ء پر بھی اعتراض لگا کر واپس کر دیا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق صدر مملکت کی طرف سے سی آر پی سی ترمیمی بل 2023ء کی سیکشن 298 اے پر اعتراض عائد کیا گیا ہے، یہ بل صدر مملکت کی طرف سے واپس بھجوائے گئے 13 بلوں میں شامل ہے۔
صدر مملکت کی طرف سے ترمیمی بل کی 3 میں سے 2 ترامیم (توہین صحابہؓ کے جرم کو ناقابل ضمانت قرار دینے ، پولیس کو بغیر وارنٹ گرفتاری کرنے کے اختیارات دینے) پر اعتراض اٹھایا گیا ہے۔ ترمیمی بل میں توہین صحابہؓ کے مجرم کی سزا کو 3 سال سے بڑھا کر 10 سال کرنے پر کوئی اعتراض عائد نہیں کیا گیا۔
صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے ترمیمی بل پر آئین کے آرٹیکل 8,9,10 ، 10 اے اور 14 اے کا حوالہ دیتے ہوئے اعتراض عائد کیا گیا ہے کہ مجوزہ بل کے تحت جرم ناقابل ضمانت اور پولیس کو بغیر وارنٹ گرفتاری کا اختیار دینا پولیس کے دائرہ اختیار سے برھ کر ہیں جسے غلط مقاصد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
صدر مملکت کے مطابق اس بل کے قانون بننے کے بعد اسے شہریوں کیخلاف غلط استعمال کیے جانے کا خدشہ ہے، پارلیمنٹ کو مجوزہ بل میں پولیس کو دیئے گئے اختیارات کے غلط استعمال کے خدشات کا نوٹس لینا چاہیے۔ یاد رہے کہ توہین صحابہؓ پر سزائیں بڑھانے کا تر،ہ،ہ بل قومی اسمبلی نے 17 جنوری اور سینٹ نے 7 اگست کو منظور کیا گیا جس میں جرم ناقابل ضمانت اور پولیس کو بغیر وارنٹ گرفتاری کا اختیار دیا گیا تھا۔
ہمارا معاشرہ نہ اسلامی ہے نہ ہی جمہوری!اسی بناء پہ ہم نےاسلام کی اور اسلامی شخصیات کی تکریم کو اتنا افسانوی بنادیا ہے کہ ہر پالتو ملا اس کے نام پہ لوگوں کے گلے کاٹ سکے اور اسے کوئی پوچھنے والا بھی نہ ہو۔
جن چیزوں کو ہمارے جاہل ملا اور نام نہاد قانون دان گستاخی کہتے ہیں،وہی چیزیں کئی اصحاب یا امہات المومنین سے منسوب کتابِ الٰہی میں نازل ہوچکی ہیں مگر چونکہ قرآن صرف چومنے کےلیے ہے اور غلاف چڑھا کے رکھنے کےلیے ہے اس لیے ہمیں کلامِ مجید کی اصل روح سمجھ ہی نہیں آ سکی۔
اگر قرآن اصحاب(رض) کو یہ کہے کہ فلاں موقع پہ جب آ پ لوگ تعداد کا گھمنڈ کررہے تھے تھے تو تم پر زمین تنگ کی گئی اور تم بھاگ کھڑے ہوئے تو یہ ملا کے اسلام کے مطابق اہانت ہے مگر اصل میں اللہ مومنیں کو یہ بتانا چاہ رہے ہیں کہ طاقت کی کثرت سے انسان گھمنڈ اور تکبر کا شکار ہوسکتا ہے لہذا اس سے بچو کیونکہ جو فتح یا شکست ہوتی ہے اللہ کی طرف سے ہوتی ہے مادی طاقت کے بل پہ نہیں۔
اسی طرح امہات المومنین کو جو عمومی خطاب قرآن نے کیا جس میں انہیں نہایت سخت تنبیہ کی گئی کہ حبیب(ص) کے سامنے ایسی فرمائشیں نہ رکھو جن کا تعلق مادیت اور دنیاوی عشرت سے ہو مگر کسی ملا کے سامنے وہی قرآنی آ یات(براہِ راست ترجمہ کے بجائے)اپنے الفاظ میں بیان کرنے لگو تو جاہل ملا گردن مارنے پہ تل جاتے ہیں۔
ایسے قوانین صرف اس ریپبلک کے اندر ہی پائے جاتے ہیں جن کا واضح مقصد مذہب کے نام پہ بھونکنے والے باؤلے کتوں کو کاٹنے کا لائسنس دینا ہے۔
امہات المومنینؓ اور صحابہ کرامؓ کی توہین پر سزائیں بڑھانے کے بل پر اعتراضات عائد ۔۔توہین صحابہؓ کے مجرم کی سزا کو 3 سال سے بڑھا کر 10 سال کرنے پر کوئی اعتراض عائد نہیں کیا گیا
صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی طرف سے امہات المومنینؓ اور صحابہ کرامؓ کی توہین کے حوالے سے بل پر اعتراضات عائد اور کوڈ آف کرمنل پروسیجر ترمیمی بل 2023ء پر بھی اعتراض لگا کر واپس کر دیا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق صدر مملکت کی طرف سے سی آر پی سی ترمیمی بل 2023ء کی سیکشن 298 اے پر اعتراض عائد کیا گیا ہے، یہ بل صدر مملکت کی طرف سے واپس بھجوائے گئے 13 بلوں میں شامل ہے۔
صدر مملکت کی طرف سے ترمیمی بل کی 3 میں سے 2 ترامیم (توہین صحابہؓ کے جرم کو ناقابل ضمانت قرار دینے ، پولیس کو بغیر وارنٹ گرفتاری کرنے کے اختیارات دینے) پر اعتراض اٹھایا گیا ہے۔ ترمیمی بل میں توہین صحابہؓ کے مجرم کی سزا کو 3 سال سے بڑھا کر 10 سال کرنے پر کوئی اعتراض عائد نہیں کیا گیا۔
صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے ترمیمی بل پر آئین کے آرٹیکل 8,9,10 ، 10 اے اور 14 اے کا حوالہ دیتے ہوئے اعتراض عائد کیا گیا ہے کہ مجوزہ بل کے تحت جرم ناقابل ضمانت اور پولیس کو بغیر وارنٹ گرفتاری کا اختیار دینا پولیس کے دائرہ اختیار سے برھ کر ہیں جسے غلط مقاصد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
صدر مملکت کے مطابق اس بل کے قانون بننے کے بعد اسے شہریوں کیخلاف غلط استعمال کیے جانے کا خدشہ ہے، پارلیمنٹ کو مجوزہ بل میں پولیس کو دیئے گئے اختیارات کے غلط استعمال کے خدشات کا نوٹس لینا چاہیے۔ یاد رہے کہ توہین صحابہؓ پر سزائیں بڑھانے کا تر،ہ،ہ بل قومی اسمبلی نے 17 جنوری اور سینٹ نے 7 اگست کو منظور کیا گیا جس میں جرم ناقابل ضمانت اور پولیس کو بغیر وارنٹ گرفتاری کا اختیار دیا گیا تھا۔
سب سے بڑا ستم تو یہ ہے کہ جو لوگ بہکاوے میں آ کر دوسروں کا قتل جائز سمجھ رہے ہوتے ہیں انہیں خود نہیں معلوم کہ گستاخی ہوتی کیا ہے اور کون سی گستاخی لائقِ تعزیر ہے؟
آ پ پچھلے دس سال میں ہونے والی گستاخیاں اٹھا کر دیکھ لیں،اس کی مثال آ پ کو سوائے اسپین میں آ خری مسلم دور کے کہیں نظر نہیں آ ئے گا۔اس کی سب سے بڑی وجہ اسلام کا پرتشدد امیج ہے۔سیاسی مقاصد کےلیے دین کے استعمال نے معاملات اور بھی گھمبیر بنادیے ہیں۔مثال کے طور پہ فرانس میں شائع ہونے والے گستاخانہ خاکوں کے رد عمل میں جب پاکستان میں باقاعدہ فساد برپا ہوا تو اس سے ناموسِ رسالت کے کاز کو تو کوئی فائدہ نہیں ہوا ہاں مگر مسلمانوں کا امیج ایک دہشت گرد اور عدم برداشت پہ چلنے والے مذہب کے طور پہ ضرور ہوا۔رضوی مرحوم نے ترک ڈرامے کے کلپ دیکھ کر اپنی جہالت(یا سادگی) سے یہ تو فیصلہ کرلیا کہ سفیر کو واپس بھیجنا ایک سخت فیصلہ ہے،مگر انہیں یہ بالکل نہیں معلوم تھا کہ اس کے نتائج خود ہمارے اپنے لوگوں کےلیے کیا اور کتنے بھیانک ہوسکتے ہیں۔اور مادی نتائج کو ایک طرف رکھ کر دیکھیں تو روحانی اور فکری طور پہ ہم نے اپنے پیغمبر کے نام نامی کےلیے کتنی زیادہ نفرت پھیلائی اس کا اندازہ تب ہوتا ہے جب رضوی مرحوم کے مظاہروں کے چند دنوں بعد ہی پڑوسی ملک انڈیا میں پیغمبرِ اکرم کو باقاعدہ ننگی گالیاں دی گئیں (سوامی نرسنگھانند نے نبی(ص) کو پاکھنڈی اور عیاش کہا اور بار بار اس بات کی تکرار کی).حیرت کی بات یہ ہے کہ انڈیا کے سفیر کی پاکستان بدری کا کوئی مطالبہ سامنے نہیں آ یا۔اس کا جواب کسی لبیک والے کے پاس نہیں ہے کہ آ خر تحریک انصاف کے خلاف ہونے والے فساد کے بعد نبی(ص) کی کھلی گستاخیوں پہ بھی ویسے ہنگامے انڈیا کے خلاف کیوں نہیں ہوئے؟
جواب ہم سب کو معلوم ہے،کیونکہ اس بد نصیب ملک میں دہشت گردی سے لے کر ریاست گردی تک ہر چیز مادی فوائد اور چند لوگوں کے غلیظ،سطحی اور ذاتی مفاد کے گرد گھومتی ہے۔جنرلز نے دنیا کو بتانے کی کوشش کی کہ دیکھو ہمارے اوپر ڈالر پھینکو ورنہ ہمارے معاشرے میں رہنے والے یہ انسان نما درندے تمہیں نوچ کھائیں گے،ملا کو قیمتی گاڑیاں مل گئیں اور ایجنسیز کی آ شیر باد مل گئی جس کے بل بوتے پہ وہ عیاشی کررہا ہے مگر نام ہمارے اس پاک نبی(ص) کا بدنام کیاگیا جو راستے میں کانٹے بچھانے والی ام جمیل سے بھی بیمارپرسی کرنے پہنچ جاتے،بدر کے قیدیوں کی تکلیف دیکھ کر ان کی رسیاں ڈھیلی کروادیتےاور جو بد ترین دشمنوں کو بھی عزت اور شرف بخشتے!
کیا جواب دیں گے یہ بد بخت ملا اس نبی رحمت کو جس کے نام پہ کتنے کلمہ گو قتل کردیے گئے؟خوشاب کے بنک مینیجر کا قاتل کس منہ سے سرورِ دوجہاں کا سامنا کرسکے گا جب وہ مظلوم بنک مینیجر اپنا استغاثہ پیش کرے گا کہ یا رسول اللہ مجھے ملاؤں کی پھیلائی ہوئی نفرت کا شکار کیوں کیا گیا اور آ پ کے نام پہ کیوں کیاگیا؟ملاوءں کی ہراسگی کا شکار ہونے والا ہر مسلمان یہ سوال حضور سے پوچھے گا کہ یا رسول اللہ ایک مسلمان ملک میں آ پ کا نام لینے والے وحشی ملاؤں کو ہر دوسرا مسلمان گستاخ اور واجب القتل کیوں نظر آ تا ہے؟
مجھے یقین ہے کہ یہ ملا حضور کے سامنے رسوا ہوں گے۔