انکی نیت نہیں کمیشن بنانے کی:مذاکرات کیوں ختم کیے؟بیرسٹر گوہر نےوجہ بتا دی

1737784372516.png


بیرسٹر گوہر علی نے کہا ہے کہ اگر حکومت کے ساتھ جاری مذاکرات کے نتیجے میں
9 مئی اور 26 نومبر کے واقعات پر کمیشن قائم نہیں کیا جا رہا، تو ہم نے حکومت کے ساتھ صرف رسمی ملاقات یا فوٹو سیشن کے لیے بیٹھنے کا فیصلہ نہیں کیا تھا۔


جوڈیشل کمپلیکس کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے سامنے ہونے والے احتجاج سے متعلق ایک مقدمہ درج ہوا، جس میں دہشت گردی کی دفعات شامل کی گئیں۔ اس مقدمے میں درخواست ضمانت پر سماعت جاری ہے، اور جج نے امید ظاہر کی ہے کہ اگلی سماعت، جو 4 تاریخ کو ہے، اس پر کیس ختم ہو جائے گا۔


انہوں نے بتایا کہ متعدد وکلاء کے خلاف مقدمات درج کیے گئے ہیں، جن میں پیشیاں بھی ہو رہی ہیں۔ بیرسٹر گوہر علی کا کہنا تھا کہ مذاکرات ایک بہترین حل ہیں اور ہم نے یہ تحفظات کے باوجود خلوص نیت کے ساتھ شروع کیے تھے۔ لیکن حکومت کی جانب سے ہمارے ساتھ زیادتی کی گئی، اور ہمارا مینڈیٹ چوری کیا گیا۔


ان کا کہنا تھا کہ عمران خان اور بشریٰ بی بی کو جن حالات میں سزا دی گئی، وہ انتہائی قابل افسوس ہیں۔ اس کے باوجود خان صاحب نے صرف دو مطالبات کے تحت مذاکرات کی بات کی تھی۔ مذاکرات کا پہلا دور 23 دسمبر کو ہوا، دوسرا 2 جنوری کو، اور تیسرا 16 جنوری کو طے پایا۔ اس دوران ہم نے حکومت کو کہا تھا کہ وہ سات دن کے اندر واضح کریں کہ کمیشن بنانے جا رہے ہیں یا نہیں۔


انہوں نے مزید کہا کہ کمیشن کے حوالے سے ججز، ٹی او آرز، مدت اور دیگر نکات طے ہونا ضروری تھے، لیکن حکومت کی طرف سے کوئی پیش رفت نہیں کی گئی، جو ان کی نیت پر سوالیہ نشان لگاتی ہے۔


بیرسٹر گوہر علی نے کہا کہ اگر کمیشن قائم نہیں کیا جا رہا، تو ہم حکومت کے ساتھ صرف رسمی ملاقات کے لیے نہیں بیٹھ سکتے۔ ان حالات کے پیش نظر خان صاحب نے مذاکرات ختم کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔


انہوں نے وضاحت کی کہ پاکستان تحریک انصاف ایک سیاسی جماعت ہے اور دیگر تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ بات چیت کے لیے تیار تھی۔ خان صاحب نے خود مذاکرات کے لیے کمیٹی تشکیل دی، لیکن حکومتی رویے کے باعث یہ عمل آگے نہ بڑھ سکا۔
 

Dr Adam

Prime Minister (20k+ posts)

جب بھی لفظ کھسی کا کہیں تذکرہ ہو تو محترم المقام بیرسٹر گوہر کا چہرہ سامنے آ جاتا ہے
 

Back
Top