
حکومت ایسا بجٹ دے گی کہ آنے والی حکومت کے آئی ایم ایف سے مذاکرات مزید مشکل ہو جائیں گے: ماہر معیشت
ماہر معیشت شہباز رانا نے نجی ٹی وی چینل اے آر وائے نیوز کے پروگرام سوال یہ ہے؟ میں گفتگو آئی ایم ایف سے قرض معاہدے پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم شہبازشریف یا وزیر خزانہ اسحاق ڈار چاہے بار بار یہ کہیں کہ ہم نے آئی ایم ایف کی تمام شرائط پوری کر دی ہیں لیکن یہ بات مکمل طور پر درست نہیں۔
موجودہ حکومت اگر اس معاملے میں سنجیدہ ہے تو اسے آئی ایم ایف سے فنڈز منظور کروانے کیلئے بجٹ بھی دکھانا پڑے گا۔
شہباز رانا نے کہا کہ آئندہ مالی سال کے دوران پاکستان نے آئی ایم ایف 25 ارب ڈالرز کے قرضے یا ان پر سود کی ادائیگی کرنی ہے جبکہ وزارت خزانہ کے اندازے کے مطابق 9 ارب ڈالرز کا کرنٹ اکائونٹ خسارہ ہو گا۔
https://twitter.com/x/status/1654199046469308448
پاکستان کو آئندہ مالی سال کیلئے مجموعی طور پر 34 ارب ڈالرز درکار ہیں اگر آئی ایم ایف سے معاہدے طے نہیں پاتا تو یہ پیسے کہاں سے آئیں گے؟ کیا پاکستان اس وقت سبسڈی یا ٹیکسز میں چھوٹ برادشت کر سکے گا؟
انہوں نے کہا کہ جو بھی حکومت برسراقتدار ہوتی ہے وہ اپنے آخری سال میں ایسا بجٹ دیتی ہے جو آئندہ آنے والی حکومت کیلئے مسائل کا باعث بنتا ہے۔ مسلم لیگ ن کی حکومت اگر آئی ایم ایف سے معاہدہ نہیں کرتی تو پر کیا ہو گا؟ یہ سب سے بڑا مسئلہ ہے، تحریک انصاف نے مذاکرات میں بھی اس خدشے کا اظہار کیا کہ حکومت ایسا بجٹ دے گی کہ آنے والی حکومت کے آئی ایم ایف سے مذاکرات مزید مشکل ہو جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کوئی بھی ہو اسے آئی ایم ایف کے پاس جانا ہی پڑے گا لیکن موجودہ حکومت کا آئی ایم ایف پروگرام میں جانے کا ارادہ نہیں لگ رہا۔ حکومت کی یہ بات کہ آئی ایم ایف ہمارے ہمارے کڑاکے نکال رہا ہے بالکل غلط ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ حکومت آئی ایم ایف کی طرف نہیں جائے گی کیونکہ حکومتی اراکین نے آئی ایم ایف سے بات کرنا ہی چھوڑ دی ہے۔
حکومت نے پالیسی میں تبدیلی کی ہے برآمدات اور غیرملکی ترسیلات زر کی مد میں ماہانہ بنیادوں پر تقریباً 4 سے 5 ارب ڈالرز ملک میں آرہے تھے جبکہ اتنے ہی درآمدات کی اجازت دی جا رہی تھی۔ حکومت اب بچت پالیسی کی طرف جا رہی ہے تاکہ آنے والے دنوں میں ادائیگیاں کی جا سکیں اور ملک ڈیفالٹ کی طرف نہ جائے۔
- Featured Thumbs
- https://www.siasat.pk/data/files/s3/12imfafaffafafafaf.jpg