ایف آئی اے افسر کے عدالت میں انکشاف: جج نے شہباز کو مزید بولنے سے روک دیا

fia.jpg


لاہورکی بینکنگ عدالت نے شہبازشریف اورحمزہ شہبازکی عبوری ضمانت میں نو اکتوبر تک توسیع کر دی، بینکنگ جرائم عدالت نے شہبازشریف اور حمزہ شہباز کی ضمانت کی درخواستوں پر سماعت کی،شہبازشریف نےعدالت کو بتایا کہ ان کا شوگر مل سے کوئی تعلق نہیں ہے، انہی سوالات کے جواب نیب کودے چکا ہوں، دوران تفتیش تذلیل کی گئی، جب کوئی آفیسر جھوٹ بول کرعدالت کو گمراہ کرے تو افسوس ہوتا ہے۔

شہباز شریف نے کہا کہ شوگر ملز ایسوسی ایشنز کے دباؤ میں نہیں آیا،کسانوں کو نقصان نہیں ہونے دیا، اللّٰہ کی قسم، دورانِ تفتیش ایف آئی اے افسران ایک آدمی پر چلاتے رہے، مجھ سے بات نہیں کی، مجھے ایف آئی اے کے دفتر میں بٹھائے رکھا گیا۔

ایف آئی اے کے وکیل نے بتایا کہ ایک نجی بینک کے 2 افسران کی ملی بھگت سے اکاؤنٹس بنائے گئے، بینک بھی تحقیقات میں تعاون نہیں کر رہے، یہ کیس انتہائی پیچیدہ ہے، بینکوں اور ملزمان کو تحقیقات میں تعاون کا واضح حکم دیا جائے،بینکرز پر دباؤ ہے اور وہ منی لانڈرنگ کے خلاف تحقیقات میں تعاون کے لیے تیار نہیں ہیں، نجی بینک کے ایک افسر کے موبائل سے بینکرز پر دباؤ ڈالنے کے وائس میسیجز ملے ہیں۔

شہباز شریف نے کہا کہ میں ایک بات کہنا چاہتا ہوں، مجھے بولنے کی اجازت دی جائے،جس پر جج نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ شہباز شریف کو جواب دیا کہ آپ کو اب بولنے کی اجازت نہیں، آپ کو ایک بار سن لیا، اب آپ خاموش رہیں،شہباز شریف نے کہا کہ خدا کی قسم میں بینک والوں کو جانتا تک نہیں، میں کیا دباؤ ڈالوں گا؟

ایف آئی اے ڈائریکٹر ڈاکٹر رضوان نے عدالت کے سامنے رپورٹ پیش کی، ڈاکٹر رضوان نے عدالت کو بتایا کہ شوگرانکوائری کمشن کی رپورٹ میں شوگر ملز بڑے پیمانے پر فنانشل فراڈ میں ملوث پائے گئے ہیں،جن بنیادوں پرانکوائری چل رہی ہے اس میں شہبازشریف اور حمزہ شہباز منی لانڈرنگ میں ملوث پائے گے ہیں۔

ایف آئی اے ڈائریکٹر ڈاکٹر رضوان نے بتایا کہ پیسے کو فرضی ذرائع سے اس طرح گھمایا جا رہا ہے جیسے پیسا گردش کر رہا ہے۔۔ تحقیقات کے دوران بیس ملازمین کے نام پربنائے گئے ستاون بینک اکاونٹس سامنے آئے ہیں،ان کاؤنٹس میں 25ارب روپے کی رقم آئی، یہ اکاونٹس 2008 میں کھلے اور 2018 میں بند ہوئے۔

ڈاکٹر رضوان نے بتایا کہ ایسے ظاہر کیا جاتا تھا کہ جیسے یہ لین دین کے پیسے ہیں، ان لوگوں کو اس پیسے کا معلوم بھی نہیں ہوتا تھا، 20 ملازمین کے 57 اکاؤنٹس کا ایف آئی اے پتہ لگا چکی ہے، جبکہ 55 ہزار 498 ٹرانزیکشنز کو ایف آئی اے دیکھ رہی ہے۔
کراچی اور اسلام آباد میں بھی اکاوئنٹس کھولے گئے،جن میں پیسے آئے،انہیوں نے بیرون ممالک جن افراد کو پیسے بھیجے ان میں کوئی بھی بزنس مین نہیں تھا، یہ غیر معمولی کیس ہے اس لیے اس میں تفتیش کا وقت لگ رہا ہے۔

جج نے استفسار کیا کہ تفتیش کب تک مکمل کریں گے؟ڈاکٹر رضوان نے جواب دیا کہ ہم ابھی چالان داخل کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں، ملزمان تفتیش میں تعاون نہیں کر رہے، یہ عام نوعیت کا کیس نہیں،عدالت نے ملزمان کی عبوری ضمانت میں نو اکتوبر تک توسیع کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔
 

Back
Top