این ایچ اے کاکام غیر معیاری،جب تک10 لوگ نہ مر جائیں پُل نہیں بنتا:چیف جسٹس

IJuJQER.jpg


سپریم کورٹ میں کوئٹہ کراچی روڈ حالت زار کیس کی سماعت ہوئی۔ عدالت عظمیٰ نے نیشنل ہائی وے اتھارٹی (این ایچ اے) کو ملک کی شاہراہوں سے متعلق رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے چئیرمین این ایچ اے کو ذاتی حیثیت میں طلب کر لیا۔

چیف جسٹس نے دوران سماعت ریمارکس دیئے کہ ہر سال ہائی ویز کی تزئین وآرائش پر اربوں روپے کے اخراجات دکھائے جاتے ہیں، این ایچ اے سے کراچی حیدر آباد روڈ نہیں بن رہا، این ایچ اے کوئی معیاری کام نہیں کر رہا، پُل اس وقت تک نہیں بنایا جاتا جب تک 10 لوگ مر نہ جائیں۔


جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے سوال اٹھایا کہ این ایچ اے کے اخراجات اور آمدن کتنی ہے؟ انہوں نے ریمارکس میں کہا کہ سڑکوں پر تلاشی کے نام پر عوام کی تضحیک کی جاتی ہے۔

عدالت نے استفسار کیا کہ بتایا جائے کوئٹہ کراچی روڈ پر مسافروں کے تحفظ کےلیے پولیس تعینات کیوں نہیں کی گئی؟ شاہراہوں کی حالت زار سے لوگوں کی زندگیوں کو خطرات ہیں، کوئٹہ کراچی روڈ کی حالت زار کو 100 فیصد تک درست کیا جائے۔

چیف جسٹس نے کہا ہائی ویز پر ریفلکٹرز، مارکنگ لائن کا کام غیر معیاری ہے۔ روڈ پر مارکنگ ایک بارش برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتی، چترال گلگت روڈ کی تعمیر کاغذوں میں مکمل ظاہر کی گئی، حقیقت اس کے برعکس ہے۔

چیف جسٹس گلزار احمدنے سوال کیا کہ کوئٹہ کراچی روڈ کو موٹروے کی طرز پر کیوں نہیں بنایا جا رہا؟ لاہور اسلام آباد موٹروے کو چھوڑ کر باقی تمام ہائی ویز کو لاوارث چھوڑ دیا گیا ہے، چترال گلگت روڈ پر صرف پتھر ہی پتھر ہیں، چترال گلگت روڈ پر گاڑی چل ہی نہیں سکتی۔

چئیرمین این ایچ اے نے بتایا کہ چترال گلگت روڈ پر پہلے صوبائی حکومت کام کر رہی تھی، ایک سال پہلے چترال گلگت روڈ این ایچ اے کو دی گئی ہے۔ جس کے بعد عدالت نے سماعت دسمبر کے پہلے ہفتے تک ملتوی کر دی۔