Asad Mujtaba
Chief Minister (5k+ posts)
"یہ بابا جی سرگودھا روڈ پر ایک چائے کے ہوٹل والے سے رات بسر کرنے کے لئے سونے کی جگہ مانگ رہے تھے ہوٹل والے نے بابے کو سامنے مسجد کا راستہ دکھایا۔
بابا جی تھوڑی دیر بعد واپس آ گئے اور ہوٹل والے کو بتایا کہ مسجد کو تالا لگا ہے
اس پر ہوٹل والے نے بابا جی کو صاف جواب دیا اور وہاں سے چلتا کیا۔
اتفاق سے ڈاکٹر ریاض، اظہر اور میں وہاں بیٹھے چائے پی رہے تھے اور بابا جی اور چائے والے کا مکالمہ بھی سن رہے تھے۔
ڈاکٹر ریاض شاہد کا اللہ بھلا کرے کہ انہوں نے مجھے حکم دیا کہ بابا جی کو ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر میں قائم "پناہ گاہ" میں چھوڑ آو اور میں بابا جی کو اپنی پھٹپھٹی پر بٹھا کر سول ہسپتال پہنچ گیا۔
دل میں اشتیاق بھی پیدا ہوا کہ ریاست مدینہ کی دعویدار حکومت نے "پناہ گاہیں" اسی مقصد کے لئے قائم کی ہیں لہذاء آج عملی تجربہ ہی سہی۔
دیکھتے ہیں جا کر کہ اس بے بس، کمزور ، بے آسراء اور نحیف بزرگ کے حق میں سرکار کیا پیش نہ آئے۔
سادہ لوح تھکا ماندہ بزرگ کمرے میں داخل ہوتے ہی زمین پر اپنا کپڑا بچھاتا ہے اور لیٹ جاتا ہے۔
لیکن اگلا منظر روح پرور ہوا۔
ایک خدا کا بندہ بابا جی کے پاس آیا، انکو سہارہ دے کر فرش سے اٹھایا اور پناہ گاہ میں ایستادہ بیڈ کے صاف ستھرے اور آرام دہ بستر پر لٹایا۔
بابا جو تھوڑی دیر پہلے نیند اور تھکن سے نڈھال تھا اس نے بلند اور طاقتور آواز لگائی اور پوچھا """ او چھورا۔
اے کہندا ڈیرہ اے؟؟؟؟؟
میں نے مسکرا کر جواب دیا " عمران خان دا"
بابا خوشی اور جوش سے پکارا
واہ بھئی واہ
زندہ باد بھئ عمران خان زندہ باد۔۔
میں بابے کو رب راکھا کہہ کر وہاں سے نکل آیا۔۔
اور جو منظر میری نم آنکھ نے دیکھا آپکو لفظ بہ لفظ لکھ بھیجا"
ایک سرگودھا کے بھائی کی بتائی ہوئی باتیں!