باجوہ کی ملازمت توسیع میں ووٹ دیکر 150لاپتہ افرادکوبازیاب کروایا:اخترمینگل

Syaed

MPA (400+ posts)
اگر اس بناسپتی انقلابی کا یہ دعویٰ درست ہے تو پھر سوال یہ ہے کہ گوادر پسنی اور جیونی سے مولانا ہدایت الرحمان اور ان کے بے شمار چاہنے والوں پہ جو کریک ڈاؤن اس کی براہ راست مرضی سے ہوا اور مولانا کو جیل میں اذیتیں دی گئیں وہ کس کھاتے میں ہوا تھا؟
 

stranger

Chief Minister (5k+ posts)
Napak fauj ke gernailo

aik or kutta bhonkna shuru

in ko umar bhar haddi dalo.. na keh seasonal

kionkeh ye bhi tumhari trah madar frosh hain...

ye thumhain maan bechte hain

or tum amrika ko
 

karachiwala

Prime Minister (20k+ posts)

کامیاب جرنیل اور احسان فراموش قوم

15 اگست 2023ء1475 :

دُنیا میں بہت کم ایسے خوش نصیب ہوں گے جن کے جیتے جی ان کے کارناموں پر کتابیں لکھی گئی ہوں، دستاویزی فلمیں بنی ہوں، اور وہ کہانیوں کے کسی کردار کی طرح عام لوگوں کی روزمرہ زندگی میں ایک ہیرو کی طرح رَچ بس گئے ہوں۔ مگر ایسے بڑے لوگوں کی تعداد تو بہت ہی کم ہے جن کی زندگی میں ہی ہالی ووڈ کی فلم انڈسٹری نے ان پر کامیاب فلمیں بنا ڈالیں۔ ایسا ہی ایک خوش نصیب مجھے اُس وقت بہت یاد آتا تھا، جب میں کبھی کوئٹہ کے سٹاف کالج کی جانب جاتے ہوئے بڑے گیٹ سے ذرا پہلے اس میوزیم کے سامنے سے گزرتا جو کبھی اس شخص کا گھر ہوا کرتا تھا۔ اس گھر میں وہ شخص 1934ء سے 1939ء تک مقیم رہا۔ اس وقت وہ محض ایک لیفٹیننٹ کرنل تھا اور اسی سٹاف کالج میں انسٹرکٹر مقرر تھا۔ جنگ کی دنیا کے عظیم ترین جرنیلوں میں شمار کیا جانے والا یہ شخص…… فیلڈ مارشل برنارڈ منٹگمری ہے، جسے برطانیہ کی شاہی فوج کے کمانڈر انچیف ہونے کا اعزاز بھی حاصل رہا۔ اس نے جنگِ عظیم اوّل اور دوئم دونوں میں اپنی سپاہیانہ عظمت کا لوہا منوایا اور اس عظیم جرنیل کی زندگی میں ہی اس کے جنگی کارنامے ہالی
ووڈ کی کہانیوں کی زینت بن گئے۔

17 نومبر 1887ء میں لندن کے کنگسٹن اوول میں پیدا ہونے والا منٹگمری 1907ء تک سینٹ پال سکول میں زیر تعلیم رہا۔ اس نے برطانوی فوج میں کمیشن حاصل کیا تو اسے ٹریننگ کے بعد محکوم ہندوستان میں تعینات کر دیا گیا۔ یہیں سے جنگِ عظیم اوّل میں اسے مغربی محاذ پر بھیجا گیا جہاں وہ لڑتے ہوئے ایک حملے میں بُری طرح زخمی ہوا، اور اس کے اسی دلیرانہ حملے کی وجہ سے اسے اعلیٰ فوجی اعزاز سے نوازا گیا۔ وہ کافی دیر تک ہسپتال میں رہا مگر صحت مند ہونے کے بعد ترقیاں اُس کے قدم چومنے لگیں۔ لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے تک اُس کی تعیناتی اپنے وطن انگلستان میں ہی رہی۔ اُس نے 1927ء میں الزبتھ نامی ایک عورت سے شادی کی جو صرف دس سال اُس کے ساتھ گزارنے کے بعد 19 اکتوبر 1937ء میں انتقال کر گئی۔ اب وہ میجر جنرل ہو چکا تھا۔
بیوی کے مرنے کے بعد، تنہا منٹگمری ابھی اپنی تنہائی سے مانوس بھی نہ ہو پایا تھا کہ، جنگِ عظیم دوئم چھڑ گئی۔ دُنیا کے ہر خطے میں اِس جنگ کے شعلے دہکنے لگے۔ ہٹلر کا جرمنی، میسولینی کا اٹلی اور مشرقِ بعید کا جاپان، سب اُس کے ملک انگلستان سے لڑ رہے تھے۔ حملے اس قدر شدید ہوتے کہ ہر دوسرے لمحے انگلستان کے شہروں پر ہوائی حملوں کی وجہ سے سائرن بجنے لگتے۔ اس جنگ کا کون سا ایسا محاذ ہے جس پر منٹگمری کو نہ بھیجا گیا ہو۔ 1940ء میں فرانس اور بلجیم میں لووٹین کی لڑائی لڑ کر وہ ابھی سانس بھی نہ لینے پایا تھا کہ اُسے مغربی محاذ پر بھیج دیا گیا اور اُس نے العالمین کے محاذ پر نومبر 1942ء کو ایک بہت بڑی ٹینکوں کی جنگ لڑی اور اس جنگ میں حاصل کی گئی فتح نے عالمی جنگ کا رُخ ہی بدل دیا۔ اس نے طرابلس کو فتح کیا تو اُس کے نام کے ڈنکے بجنے لگے اور جنگ کے دوران ہی اُس کو جنرل کے رینک پر ترقی دے دی گئی۔ اُس کی پیش قدمیاں بڑھتی گئیں اور وہ الاغیلیہ، الحمہ، وادیٰ عقربت، سسلی کے محاذ اور اٹلی پر مسلسل جنگیں جیتتا ہوا تاریخ ساز نارمنڈی کے محاذ تک آ پہنچا۔ جہاں اُس کی مہارت، کارکردگی اور سپاہیانہ عظمت سے جیتنے والی جنگ آج تک دنیا بھر کے وار (War) کورسز کا حصہ ہے۔ نارمنڈی کی فتح کے بعد جنگ کا پانسہ پلٹ چکا تھا۔ اب برطانیہ کے اس عظیم سپوت کے سامنے 4 مئی 1945ء کو ہٹلر کی جرمن فوجوں نے ہتھیار ڈال دیئے۔ مسلسل خوف کا شکار برطانوی عوام جو ہٹلر کی بڑھتی ہوئی پیش قدمیوں سے خوفزدہ تھے، اس خبر کو سنتے ہی خوشی سے جھوم اُٹھے۔ انگلستان واپسی پر عوام نے اس جرنیل کا والہانہ استقبال کیا اور اسے اگلے سال ہی برطانوی افواج کا کمانڈر انچیف بنا دیا گیا اور یوں ستمبر 1958ء میں وہ یورپ کی اتحادی افواج کے ڈپٹی سپریم کمانڈر کی حیثیت سے ریٹائر ہو گیا۔

یہ عظیم جرنیل، انگلستان کو فتح سے ہمکنار اور جرمن، اٹلی اور جاپانی افواج کو عبرتناک شکست سے دوچار کرنے والا جب ریٹائرڈ ہوا تو اُس کے پاس رہنے کے لئے گھر تو دُور کی بات ایک کمرہ بھی نہ تھا۔ پوری زندگی اکیلا رہنے کی وجہ سے اُس کا مزاج چڑچڑا ہو چکا تھا۔ وہ کبھی ایک گھر کرائے پر لیتا اور مالک مکان سے جھگڑ کر دوسرے گھر منتقل ہو جاتا۔ بہت سے گھر بدلنے کے بعد وہ ایک دن تنگ آ گیا اور ایک درخواست لے کر برطانوی وزیر اعظم کے دفتر 10 ڈاؤننگ سٹریٹ پہنچ گیا۔ لوگ اِس عظیم جرنیل کو اس دروازے پر دیکھ کر حیران رہ گئے۔ وزیر اعظم نے باہر آ کر اُس کا استقبال کیا۔ وزیر اعظم نے مؤدب برطانوی لہجے میں پوچھا ”اے ہمارے محسن میں آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں“۔ منٹگمری نے وزیر اعظم کے سامنے ایک درخواست رکھ دی۔ فیلڈ مارشل منٹگمری نے درخواست میں تحریر کیا تھا کہ ”میں نے تمام عمر تاجِ برطانیہ کی فوج میں خدمات سرانجام دی ہیں اور اس ملک کو فتح سے ہمکنار کروایا ہے، مگر میرے پاس اس وقت رہنے کے لئے کوئی گھر نہیں ہے۔ مجھے میری بقیہ زندگی جو کہ اب بہت مختصر رہ گئی ہے، اس کے لئے کوئی گھر الاٹ کیا جائے یا پھر کوئی زرعی زمین الاٹ کر دی جائے تاکہ میں آرام سے باقی دن گزار سکوں“۔ وزیر اعظم نے خاموشی سے درخواست پڑھی اور پھر کافی دیر تک منٹگمری کے کارناموں کی تعریف کرنے کے بعد اس سے مخاطب ہوا۔ جرنیل صاحب آپ نے برطانیہ کے لئے جو خدمات سرانجام دی ہیں، پوری قوم اس کے لئے آپ کی احسان مند ہے، لیکن میرے علم میں ہے کہ حکومتِ برطانیہ آپ کو ان خدمات کے عوض باقاعدہ تنخواہ دیتی رہی ہے اور میری معلومات کے مطابق ایک گھنٹہ کے لئے بھی آپ کی تنخواہ کبھی لیٹ نہیں ہوئی، اور دوسری بات یہ ہے کہ سلطنتِ برطانیہ کے وزیر اعظم کے پاس ایسا کوئی اختیار نہیں ہے کہ وہ آپ کو سرکاری طور پر کوئی گھر، فلیٹ یا زرعی زمین الاٹ کر سکے۔ برطانوی وزیر اعظم کو اپنے اختیار کی اس بے بسی کا اظہار کرتے ہوئے قطعاً کوئی شرم محسوس نہ ہوئی اور نہ ہی منٹگمری کو یہ بات سمجھنے میں زیادہ دیر لگی۔اس نے درخواست لپیٹی اور خاموشی سے 10 ڈاؤننگ سٹریٹ سے نکل گیا۔

کتنا بے بس ہوتا ہے برطانیہ کا وزیر اعظم کہ جو اپنے سب سے عظیم جرنیل کو کوئی پلاٹ، کوئی زرعی زمین اور کوئی مکان الاٹ نہیں کر سکتا۔ اور کتنا بدنصیب تھا جرنیل منٹگمری جسے اُس کے ملک کی منتخب حکومت نے بقیہ زندگی گزارنے کے لئے پوری دنیا میں پھیلے اپنے سفارتخانوں میں کسی ایک میں سفیر بھی مقرر نہ کیا، برطانیہ میں اتنی حکومتی کارپوریشنیں تھیں، اُن میں سے اُسے کسی کا سربراہ یا چیئرمین بھی نہیں لگایا گیا شاید انہیں تعیناتیوں سے اس عظیم جرینل کی بقیہ زندگی آرام سے گزر جاتی۔ اسے کوئی کول مائن بھی الاٹ نہ کی گئی، کسی شکار گاہ کو بھی اُس کے نام نہ کیا گیا۔ اس کے بعد نارمنڈی کا یہ فاتح فیلڈ مارشل منٹگمری جگہ جگہ گھر بدلتا، کرائے پر رہتا، 24 مارچ 1976ء کو ونڈسر کے علاقے میں انتقال کر گیا۔ اُسے پورے اعزاز کے ساتھ منوں مٹی تلے دفن کر دیا گیا۔ اگر اس کی تربیت کسی اور سیاسی معاشرے میں ہوئی ہوتی تو وہ اس وقت منوں مٹی تلے لیٹے سوچ رہا ہو گا کہ کاش!وہ نارمنڈی فتح کرنے کے بجائے وزیر اعظم ہاؤس 10 ڈاؤننگ سٹریٹ کو فتح کر لیتا تو اپنی بقیہ زندگی اِس احسان فراموش برطانوی قوم میں سکون اور اطمینان سے گزار سکتا تھا۔
 

Wake up Pak

(50k+ posts) بابائے فورم
This imbecile admits that the bastard fascist generals kidnap the people to blackmail the political leaders for their gains.
 

Back
Top