
پاکستان کے قومی احتساب بیورو (نیب) نے بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض، ان کے صاحبزادے، سابق وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ، اور دیگر 30 افراد کے خلاف قومی خزانے کو 700 ارب روپے سے زائد کا نقصان پہنچانے کے الزام میں ریفرنس دائر کردیا ہے۔ یہ ریفرنس چئیرمین نیب لیفٹننٹ جنرل (ریٹائرڈ) نذیر احمد کی منظوری اور دستخط کے بعد کراچی کی نیب عدالت میں جمع کروایا گیا ہے۔ عدالت نے ریفرنس کو سماعت کے لیے منظور کرتے ہوئے ملزمان کو نوٹس بھی جاری کردیے ہیں۔
نیب کے مطابق، ملزمان پر الزام ہے کہ انہوں نے غیر قانونی طریقے سے بحریہ ٹاؤن کراچی کے لیے زمین پر قبضہ کرکے قومی خزانے کو 700 ارب روپے سے زائد کا نقصان پہنچایا ہے۔ ریفرنس میں شامل ملزمان میں ملک ریاض، ان کے صاحبزادے، سابق وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ، اُس وقت کے وزیر بلدیات اور موجودہ وزیر اطلاعات شرجیل انعام میمن، اور متعدد سرکاری افسران شامل ہیں۔
بحریہ ٹاؤن کراچی کی زمین غیر قانونی طور پر حاصل کرنے کی انکوائری 2015 کے آخر میں شروع کی گئی تھی، جسے بعد میں انویسٹی گیشن میں تبدیل کردیا گیا۔ دس سال بعد، اس ریفرنس کو عدالت میں داخل کیا گیا ہے۔ اس وقت ملک ریاض نے الزام عائد کیا ہے کہ انہیں گواہی کے لیے بلیک میل کیا جارہا ہے۔ دوسری جانب، حکومتی اداروں کا کہنا ہے کہ ملک ریاض کے دبئی میں شروع ہونے والے نئے پراجیکٹ کے لیے رقم منی لانڈرنگ کے ذریعے منتقل کی گئی ہے۔
https://twitter.com/x/status/1885609493544718542
نیب کی جانب سے فائل کردہ ریفرنس میں ملک ریاض اور ان کے صاحبزادے سمیت 33 ملزمان شامل ہیں۔ ریفرنس میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ ملزمان نے مختلف قوانین اور سپریم کورٹ کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے غیر قانونی طور پر زمین بحریہ ٹاؤن کراچی کے نام منتقل کی۔
نیب کے مطابق، 2013 میں سندھ اسمبلی سے ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی ایکٹ میں ترمیم کرکے قانون منظور کروایا گیا، جس کے چھ روز بعد ہی بحریہ ٹاؤن نے ضلع ملیر میں ہاؤسنگ پراجیکٹ بنانے کا اعلان کیا۔ اسی سال نومبر میں حکومت سندھ نے ملیر کے 43 دیہات میں سروے کرنے اور رہائش کے لیے قابلِ استعمال بنانے کی غرض سے کام کا آغاز کرنے کی سمری منظور کی۔
نیب کا کہنا ہے کہ سابق وزیرِ بلدیات شرجیل انعام میمن نے سمری منظور کرنے کی غیر قانونی طور پر سفارش کی، جسے اُس وقت کے وزیر اعلیٰ سید قائم علی شاہ نے قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے منظور کیا۔ اس عمل کے بعد سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے مفرور سابق ڈائریکٹر جنرل منظور قادر کی جانب سے بحریہ ٹاؤن کراچی میں بکنگ کی غیر قانونی اور خلاف ضابطہ اجازت دی گئی۔
بحریہ ٹاؤن کی اراضی سے متعلق سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ بحریہ ٹاؤن نے الاٹ کردہ 16 ہزار 986 ایکڑ زمین کے بجائے 19 ہزار 931 ایکڑ زمین پر تعمیرات کیں۔ سپریم کورٹ نے قرار دیا تھا کہ اس معاملے میں پوری حکومتی مشینری نے بحریہ ٹاؤن کی جانب سے غیرقانونی فوائد جمع کرنے میں کردار ادا کیا۔
نومبر 2023 میں سپریم کورٹ نے بحریہ ٹاؤن کو 460 ارب روپے جرمانہ ادا کرنے کا حکم دیا تھا، جو سپریم کورٹ میں جمع کرایا جانا تھا۔ تاہم، بحریہ ٹاؤن کی جانب سے اس اکاؤنٹ میں محض 24 ارب 26 کروڑ روپے جمع کرائے گئے ہیں۔ بقیہ رقم جمع نہ کرانے پر بحریہ ٹاؤن سپریم کورٹ کے احکامات کی خلاف ورزی کا بھی مرتکب ہوا ہے۔
بیرونِ ملک مقیم ملک ریاض نے حال ہی میں الزام عائد کیا تھا کہ انہیں حکومت کی جانب سے بلیک میل کیا جارہا ہے۔ 22 جنوری کو سوشل میڈیا پر جاری ایک بیان میں ملک ریاض نے نیب کی پریس ریلیز کو بلیک میلنگ قرار دیا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ نیب کے پاس اس وقت بحریہ ٹاؤن کے مالک اور دیگر افراد کے خلاف دھوکہ دہی اور فراڈ کے کئی مقدمات زیر تفتیش ہیں۔
ملک ریاض نے اپنے بیان میں مزید کہا تھا کہ وہ ضبط سے کام لے رہے ہیں، لیکن ان کے دل میں ایک طوفان ہے۔ اگر یہ بند ٹوٹ گیا تو پھر سب کا بھرم ٹوٹ جائے گا۔
نیب کے مطابق، ادارے کے پاس اس بات کے مضبوط شواہد موجود ہیں کہ ملک ریاض اور ان کے ساتھیوں نے بحریہ ٹاؤن کے نام پر کراچی، تخت پڑی راولپنڈی، اور نیو مری میں سرکاری اور نجی اراضی پر بغیر این او سی قبضہ کیا۔ نیب نے الزام عائد کیا ہے کہ ملک ریاض نے بغیر اجازت نامے کے ہاؤسنگ سوسائٹیز قائم کرتے ہوئے لوگوں سے اربوں روپے کا فراڈ کیا ہے۔
کئی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ملک ریاض کے خلاف ان کارروائیوں کا آغاز اس وقت کیا گیا جب سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف القادر ٹرسٹ کیس میں مبینہ طور پر ملک ریاض نے عمران خان کے خلاف گواہی دینے سے انکار کیا تھا۔ حکومت کا کہنا ہے کہ اس کیس کا تعلق 190 ملین پاؤنڈ کی اس رقم سے ہے جو برطانیہ نے سال 2019 میں ملک ریاض سے منی لانڈرنگ کے الزام میں برآمد کرکے پاکستان واپس بھجوائی تھی۔