بحیثیت آئی ایس آئی چیف جنرل اختر عبدالرحمن شہید کی کامیابی کا راز

News_Icon

Chief Minister (5k+ posts)
General_Akhtar_Abdur_Rahman.png




بحیثیت آئی ایس آئی چیف جنرل اختر عبدالرحمن شہید کی کامیابی کا راز

ابراہیم علی خان لودھی

آج کل کے حالات میں جب پاکستان میں خفیہ ایجنسیاں زیر بحث ہے، یہ جاننے کی اشد ضرورت ہے کہ بحیثیت آئی ایس آئی چیف جنرل اختر عبدالرحمن شہید کی کامیابی کا راز کیا تھا کہ ان کی شہادت کے بعد جب ان کی حیرت انگیز شخصیت اور ان کے محیر العقول کارناموں کی تفصیلات سامنے آئیں، تو سب دنگ رہ گئے۔

پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی ( انٹر سروسز انٹیلی جنس ) کی بنیاد ۱۹۴۸ رکھی گئی لیکن اس کو عالمگیر شہرت روس کے خلاف افغانستان کی سرزمین پر لڑی جانے والی طویل گوریلا جنگ کے دوران حاصل ہوئی ، جب اس کی کمان جنرل اختر کے ہاتھ میں تھی۔ افغانستان سے روسی فوجوں کی واپسی کے بعد واشنگٹن پوسٹ نے اپنی ۲۲ مارچ ۱۹۸۹ء کی رپورٹ میں اعتراف کیا کہ: ۱۷ اگست ۱۹۸۸ ء کو، جب جنرل اختر عبدالرحمن، جنرل ضیا الحق کے ساتھ ہی جاں بحق ہو گئے ، تو آئی ایس آئی تیسری دنیا کی سب سے موثر اور جدید ترین انٹیلی جنس ایجنسی کا مرتبہ حاصل کر چکی تھی اور یہ مغربی سفارت کاروں اور عسکری مبصرین کی متفقہ رائے ہے ۔ آئی ایس آئی نے یہ پوزیشن کس طرح حاصل کی ، اس کی بھی ایک کہانی ہے، جو جون ۱۹۷۹ء سے اگست ۱۹۸۸ء تک پھیلی ہوئی ہے۔

جون ۱۹۷۹ء میں آئی ایس آئی چیف محمد ریاض خان حرکت قلب بند ہو جانے سے انتقال کر گئے، تو نئے چیف کے لیے جنرل ضیا الحق کی نگاہ انتخاب جنرل اختر عبد الرحمن پر پڑی۔ ایک ایسے وقت میں یہ ذمہ داری ان کے سپرد کی گئی ، جب پاکستان اندرونی اور بیرونی محاذوں پر بڑی مشکل صورتحال سے دوچار تھا ۔ افغانستان عدم استحکام کا شکار تھا اور وہاں سے مہاجروں کا کوئی نہ کوئی قافلہ روزانہ پاکستان کی حدود میں داخل ہو رہا تھا۔ ایران میں ڈھائی ہزار سالہ شہنشائیت کا خاتمہ ہو چکا تھا اور امام خمینی کی قیادت میں ایرانی معاشرہ ایک انقلاب کے عمل سے گزر رہا تھا۔ اندرون ملک بھٹو کی پھانسی کے بعد جنرل ضیا الحق کے خلاف اپوزیشن متحد ہوگئی تھی ۔ ان غیر واضح حالات میں بھارت کی خفیہ ایجنسی ”را“ پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے لیے متحرک ہو چکی تھی۔

عسکری تاریخ کا مسلمہ اصول ہے کہ جنگیں خفیہ ایجنسیوں کے بل پر لڑی اور جیتی جاتی ہیں۔ جن لوگوں نے دنیا کے عظیم فاتحین کی داستانیں پڑھی ہے، ان سے یہ حقیقت پوشیدہ نہیں کہ ان کی جنگی فتوحات میں ہم ترین فیکٹر ان کی خفیہ ایجنسیاں تھیں ، جن سے وہ اپنے دشمن کو دیکھتی ، اس کے خلاف حکمت عملی وضع کرتی اور آخر کار فتح حاصل کرتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ آج بھی دنیا کے سب ممالک اپنے خفیہ اداروں کو لا محدود بجٹ فراہم کرتے ہیں، ان کو طاقتور سے طاقتور بنانے کی جستجو میں رہتے ہیں، اور ان کی فراہم کر دو معلومات کی بنیاد پر ہی ملکی سلامتی سے متعلق اہم ترین فیصلے کرتے ہیں ۔

جنرل اختر عبد الرحمن نے آئی ایس آئی کی کمان سنبھالی تو آئی ایس آئی اوسط درجہ کی خفیہ ایجنسی تھی اور پاکستان کے خلاف اندرونی اور بیرونی سازشوں کو موثر طور پر نا کام بنانے کی پوزیشن میں نہ تھی۔ جنرل اختر شہید نے اسے ایک موثر خفیہ ایجنسی بنانے کے لیے اپنی تمام تر صلاحتیں صرف کر دیں، نئی اور بہترین افرادی قوت بھرتی کی ، ڈھونڈ ڈھونڈ کر جفاکش جوان اور ذہین افسر ا کٹھے کیے، ان کو ہر طرح کے وسائل فراہم کیے، اور ان کی بہترین ذہنی، جسمانی اور نفسیاتی تریبت کی ۔ اس طرح کچھ ہی عرصہ میں آئی ایس آئی کو پیشہ ورانہ لحاظ سے ایک ایسی زبردست فورس میں تبدیل کر دیا، جس پر ہر طرح کے حالات میں فوج انحصار کر سکتی تھی۔

یوں محسوس ہوتا تھا کہ جیسے قدرت کو جنرل اختر عبد الرحمن شہید سے کوئی بہت بڑا کام لینا مقصود ہے۔

یہ اندازہ اس وقت سچ ثابت ہوا ، جب دسمبر ۱۹۷۹ء میں افغانستان میں وہ جنگ شروع ہوئی ، جس کے لیے دست قدرت برسوں سے جنرل اختر کی پرورش کر رہا تھا۔ روسی فوجیں اپنے بکتر بندوستوں کے ساتھ افغانستان میں داخل ہو گئیں اور اسے اپنے مقبوضات میں شامل کر لیا۔ پاکستان کے پاس ۲ راستے تھے، پہلا یہ کہ خوف زدہ ہو کر چپ سادھ لے؛ دوسرا یہ کہ روسی فوجوں کے خلاف افغان مزاحمت کا ساتھ دے۔ جنرل اختر عبدالرحمن کی رائے یہ تھی کہ روس کو اگر افغانستان میں نہ روکا گیا، تو اس کا اگلا ہدف پاکستان ہوگا۔ تا ہم ، اس جنگ میں پاکستان کو بالواسطہ طور پر اپنا کردارادا کرنا ہوگا، یعنی عملی طور پر یہ پراکسی وار ہوگی ۔

جنرل اختر نے یہ جنگ کس طرح لڑی اور جیتی ، یہ دنیا کی جنگی تاریخ کا ایک ولولہ انگیز باب ہے۔ امریکہ کے عسکری امور کے ماہر بروس رائیڈل افغانستان پر اپنی تحقیقی تصنیف America s Secret War in Afghanistan میں اس کا اعتراف کرتے ہوئے لکھتے ہیں : یہ پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی تھی، جس نے روس کے خلاف افغان مجاہدین کولیڈرشپ ، ٹرینگ اور سٹریٹی مہیا کی ، اور یہ افغان عوام اور پاکستان ہی تھے، جنھوں نے اس عظیم جنگ کا تمام تر خطرہ مول لیا اور قربانیاں دی تھیں ۔“ جنرل اختر عبدالرحمن نے اندرون ملک بھی بڑی سمجھداری سے بعض انتہائی حساس معاملات کو بغیر کوئی تلخی پیدا کیے حل کر دیا۔ جیسا کہ جولائی ۱۹۸۰ء کے پہلے ہفتہ میں ایک مذہبی گروہ نے اسلام آباد میں سول سیکرٹریٹ کا محاصرہ کرلیا، دفاتر بند ہوگئے اور حکومتی مشینری مفلوج ہوگئی ۔ جب وزارت داخلہ بھی بے بس ہوگئی تو صدر ضیاء نے یہ مشن جنرل اختر کوسونپا ، جنھوں نے بغیر کسی خون خرابہ کے اس مسئلہ کو اس طرح حل کیا کہ مذہی گروہ نے محاصرہ ختم کر دیا اور مطمئن ہو کے گھر چلا گیا۔ اسی طرح جب کچھ فوجی افسروں نے یوم پاکستان کی پریڈ پر صدر کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا، تو یہ جنرل اختر ہی نے اس سازش کو پکڑا اور نا کام بنایا تھا۔ پھر جب اسلام آباد میں کچھ مشتعل مظاہرین نے عین اس وقت امریکن سنٹر کو آگ لگا دی کہ اس کے اندر امر یکی عملہ بھی موجود تھا، تو جنرل اختر ہی نے اس ریسکیو آپریشن کی نگرانی کی اور امریکیوں کو بحفاظت باہر نکالا ۔ مارچ ۱۹۸۷ ء میں جب جنرل اختر کو ورسٹار جنرل کے عہدے پر ترقی دے کر چیئر مین جوائنٹ چیفس آف سٹاف بنایا گیا تو بلا شبہ آئی ایس آئی کا شمار دنیا کی صف اول کی خفیہ ایجنسیوں میں ہوتا

تھا۔ جنرل اختر عبدالرحمن کے زیر کمان آئی ایس آئی کا یہ دور بلا شبہ آئی ایس آئی کے لیے رول ماڈل کی حیثیت رکھتا ہے۔ لیکن ، نکتہ یہ ہے کہ جب جنرل اختر عبدالرحمن یہ سب کچھ کر رہے تھے ، کوئی اس بارے میں کچھ نہیں جانتا تھا۔ خاندان اور چند قریبی دوست احباب کے سوا کوئی ان کے نام تک سے واقف نہ تھا۔ افغانستان میں افغان تنظیموں کو متحد کرنے سے پہلے انھوں نے اندرون ملک تمام سیاسی اور مذہبی جماعتوں کو اس طرح اعتماد میں لیا اور روسی جارحیت کے مضمرات سے آگاہ کیا کہ ملکی اور غیر ملکی پر لیس کوکو کانوں کان خبر نہ ہوسکی۔ وہ آیت اللہ مینی سے ملاقات کیلئے تم ان کے گھر پہنچ گئے ۔ سعودی عرب سمیت تمام مسلم ملکوں سے

ان کا قریبی رابطہ تھا۔ اندرون ملک اس وقت سیاسی طور پر آج ہی کی طرح شدید پولرائزیشن تھی لیکن جنرل اختر عبد الرحمن نے خود کو

ان تنازعات سے بہت دور رکھا، اور بنیادی طور پر یہی ان کی کامیابی کا راز تھا۔ کوئی تشہیر نہیں ، کوئی خود نمای نہیں، کوئی ملکی یا غیر ملکی کی

رپورٹر، کالم نگار یا ایڈیٹر ان سے قربت کا دعوی نہیں کر سکتا تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ جنرل اختر عبد الرحمن شہید کا نام ۱۷ اگست ۱۹۸۸ء کوان

کی شہادت کے بعد سامنے آیا، اور اس طرح سامنے آ کہ آج دنیا کی جنگی تاریخ میں ایک داستانوی رنگ اختیار کر گیا ہے۔
 

Talwar Gujjar

Chief Minister (5k+ posts)
Jurnail apni kamyabi k qeemat vasool kena jaantey hein. Gen Akhtar k Swiss Accts mein hefty deposits thea, tabi os k betey brey baney bethey hein. Sharifoon k tarah apna kama k barey bantey tau samaj aati.
 

Fact Checker

Voter (50+ posts)
I'm sorry, it's disappointing to see such pieces keep resurfacing when, to be fair, there's not much to be proud about the 1980s War. There's so much out in the public domain now that one doesn't need some story-teller from the 80s, it wouldn't fly.

I wouldn't say anything from my side. For posterity - the below is also part of the above story and has not been disproved to-date:

"In 1985, the same year President Ronald Reagan called for more oversight of the aid going into Afghanistan, an account was opened in the name of three of General Khan’s sons. (The general never faced charges of stealing aid money.) Years later, the account would grow to hold $3.7 million, the leaked records show.
Two of the general’s sons, Akbar and Haroon Khan, did not respond to requests for comment from the reporting project. In a text message, a third son, Ghazi Khan, called information about the accounts “not correct,” adding, “The content is conjectural.”

Vast Leak Exposes How Credit Suisse Served Strongmen and Spies (NYT: Feb 20, 2022)

"In the late 1970s, the U.S. backed seven different factions of Islamist fighters called the mujahideen who were battling Russia’s presence in Afghanistan. Saudi Arabia matched U.S. funding to the jihadists dollar for dollar, often sending the money to the CIA’s Swiss bank account. The end recipient in the process was Pakistan’s Inter-Services Intelligence group (ISI), led by Akhtar.
By the mid-1980s, Akhtar was adept at getting CIA cash into the hands of Afghan jihadists. It was around this time that Credit Suisse accounts were opened in the names of his three sons.
As Mohammad Yousaf, a colleague of Akhtar’s at the ISI who later penned a book about the time, wrote: “The combined [U.S. and Saudi] funds, running into several hundred million dollars a year, were transferred by the CIA to special accounts in Pakistan under the control of ISI.”
One South Asian intelligence source with knowledge of Afghanistan operations told OCCRP: “It was easy at that point in time to open Swiss banking accounts of any manner or type for transfer of overt funds.”
“Akhtar was doing it to fill his own pockets,” the source said. “A lot of money was siphoned off from the Afghan war and into his bank accounts.”
One of the two Akhtar family accounts at Credit Suisse — held jointly by Akhtar’s sons Akbar, Ghazi, and Haroon — was opened on July 1, 1985, when the sons were in their late 20s and early 30s. That same year, U.S. President Ronald Reagan would raise concerns about where the money intended for the mujahideen was going. By 2003, this account was worth at least five million Swiss francs ($3.7 million at the time). A second account, opened in January 1986 in Akbar’s name alone, was worth more than 9 million Swiss francs by November 2010 ($9.2 million at the time).

Bank of Spies: Credit Suisse Catered to Global Intelligence Figures (OCCRP, Daraj, Süddeutsche Zeitung, NDR: Feb 20, 2022)
Further Reading: Ghost Wars by Steve Coll (Penguin Press, 2004)​

And whose "strategic" interests has the 80s War actually and eventually served?
No comments. People can judge for themselves. According to scholars, one of the biggest outcomes of that War were:
(a) marginalization of PLO (it lost its principal political/financial patron(s) USSR, later Saddam and Qaddafi) and forced PLO to accept the Oslo Accords out of duress and abandonment by Muslims/non-Muslims alike (Read Professor Khalidi before chest-thumping, who was probably also one of the negotiators and had opposed the Accords), and
(b) encouraged and informed Israel to apply lessons to more successfully frame issues in religious, rather than political, terms (locally, to begin with) and encourage rise of Hamas in/around 1988 as political force to counter Fatah/PLO (by challenging PLO/Unified National Leadership of the Uprising (UNLU) in the Occupied Territories in 1988, and later schism and takeover of Gaza in 2007), practically undermining any notion of Palestinian statehood, if it still existed (no wonder, in Oct/Nov 2023, several Arab and Muslim states were actually calling on the West to destroy Hamas (read Jordanian, Saudi, Hamas statements) (and who doesn't remember the Black September of 1970 in Jordan under Brig Zia-ul-Haq & King Hussain?? Late Yasir Arafat claimed that the Black September killed ~25,000 Palestinians and I don't want to repeat what Moshe Dayan said about that carnage, it's quoted by Tariq Ali) (so did anyone really care about consequences of the 80s War? when not just the money even the curriculum and textbooks for the "warriors" were designed/written by the U of Nebraska at Omaha. Sad.

"So the victims of Zionism need to legitimize, need to accept, Zionism's legitimacy as a starting point. This is, of course, what the Israelis and the PLO officials were able to do at Oslo [with the signing of the Oslo accords which envisaged a final settlement of the Israel-Palestine dispute], where finally the Palestinian leadership in 1993 accepted, in many ways, the Zionist version, both of Jewish and Palestinian histories, and succumbed to it." - Professor Jospeh Messad in "No Common Ground," 2002​
 

Back
Top