khalilqureshi
Senator (1k+ posts)
اب بظاہریہ محسوس ہورہا ہے کہ آکسفرڈ کے تعلیم یافتہ ، انگریزی ہواؤں میں زیادہ وقت گزارنے والے کھلاڑی کو قید میں جاتےہی یہ احساس ہوگیا کہ یہ پاکستان ہے انگلستان نہیں جہاں نظام کو نظام میں رہتے ہوئے پرامن طریقے سے تبدیل نہیں کیا جاسکتا. لیکن پھر کیا کیا جائے؟
یقیناً اس کیا کیا جائے کا جواب بہت مشکل ہے. کسی بھی بدبودار ، بیمار اور سوختہ نظام کو بدلنے کے لئے اس کو حائل بیماریوں کی تشخیص کرنا، اور یہ دیکھنا کہ کیا ان بیماریوں کا علاج ممکن ہے یا ایک مکمل سرجری کی ضرورت ہے یا نہ چاہتے ہوئے بھی چونکہ بیماری اس سطح پر پہنچ گئی ہے کہ اب بیمار کو ایک آخری انجیکشن دے اس کی قبر پر فاتحہ پڑھ لینی چاہئے. اب اگر یہی آخری حل رہ گیا ہے تو اس کے لئے تمام ان بیماریوں کو مکمل طور پر طشت از بام کرنا بہت ضروری تھا تاکہ ورثا کو انجیکشن کے لئے قائل کیا جاسکے. ان تمام مراحل کو طے کرنے کے لئے ایک انتہائی ماہر فزیشن، سرجن کی ضرورت تھی جو پاکستان کو عمران خان کی صورت میں میسر آگیا ہے.
عمران خان کو دوران حکومت اور حکومت سے نکالے جانے کے بعد ان تمام ان تمام خرابیوں، برائیوں اور بیماریوں کا مکمل ادراک ہوچکا تھا لیکن ورثا کو انجیکشن پر قائل کرنا بہت مشکل امر تھا. چنانچہ اس نے جیل جانا غنیمت سمجھا کہ وہ وہاں سے بیٹھ کر اس بدبودار نظام جس کی گھٹن آمیز بدبونے اس نظام کے سارے ورثا کو بیمار کرنا شروع کردیا ، کو اس کی تمام تر بیماریوں سمیت ورثا یعنی عوام اور کچھ دوسرے عزیز اور اقربا کے سا منے مکمل طور پر عیاں کردیا.
اس سلسلے میں خود عمران خان کی غیر قانونی قید، اس کی اہلیہ سمیت عدت اور توشہ خانہ جیسے بے سروپا اور بدنیتی پر مبنی مقد مات میں ملوث کرکے، ان کی ذاتی زندگی پر سوالات گھڑ کے ان کی تذلیل کرنا اور اس مہم میں بکاؤ میڈیا کو شامل کرنا، ڈیڑھ سو سے زائد مقدمات دائر کرنا اور اس تمام کئے دھرے میں عدالتوں کا انتہائی قابل نفرت کردار. انتخابا ت میں الیکشن میں الیکشن کمیشن سپریم کورٹ اور ضلعی انتظامیہ کی ملی بھگت نے کئی راز افشاء کردئے. الیکشن کے بعد جس دیدہ دلیری اور دادہ گیری سے سترہ سیٹیوں والی بندروں کی پارٹی کو اکثریت دلاکر حکومت میں لایا گیا اور جس طرح ان کو دو تہائی اکثریت دلانے کے لئے بے شرمی اور بے غیرتی کی ھر حد پار کی جارہی ہے، جس طرح کارکنوں خاص طور پر خاتون کارکنوں کو یکے بعد دیگرے مقدمات میں پھنسا کر جیلوں میں کر ہراساں اور متعلقین کو پریشان کیا جارہا ہے اور اب تازہ ترین جس طرح سے سپریم کورٹ میں ایڈہاک ججوں کی تقر ری کی جارہی ہے اور الیکشن کمیشن نے براہ راست مخصوص نشستیں کیس کا فیصلہ ماننے سے انکار کیا ہے اور جس طرح بدمعاش جنرلوں کی پشت پناہی ان سب عوامل کی ہمت افزائی کر رہی ہے اس نے اس دائمی مریض سے جڑی ہؤئ تمام ہمدردیاں ختم کردی ہیں. اس دائمی مرض کے تمام عوامل بشمول سر سے پاؤں تک کرپشن میں لتھڑے ہؤے سیاستدان، بدعنوان سول بیوروکریسی، غیر منصف ماتحت سے عدالت عالیہ اورعدالت عظمہ،لفافہ صحافی، بے قابو پولیس، اور ان سب کے سرخیل بدمعاش اور بےغیرت جنرل ان سب کو عوام نے مکمل طور پر پہچان لیا ہے. یہی وجہ ہے ان عوامل میں شامل ایک چھوٹی لیکن باشعور اور ایماندار اور غیرتمند اقلیت نے خود کو اب ورثا کی صف میں شامل کرنا شروع کردیا ہے اور اب حالات اس نہج تک پہنچ چکے ہیں کہ زہریلی انجکشن ناگزیر ہوچکی ہے.
وقت آگیا ہے کہ اس بدبودار دائمی مریض سے ہمیشہ کے لئے نجات حاصل کرلی جائے.
یقیناً اس کیا کیا جائے کا جواب بہت مشکل ہے. کسی بھی بدبودار ، بیمار اور سوختہ نظام کو بدلنے کے لئے اس کو حائل بیماریوں کی تشخیص کرنا، اور یہ دیکھنا کہ کیا ان بیماریوں کا علاج ممکن ہے یا ایک مکمل سرجری کی ضرورت ہے یا نہ چاہتے ہوئے بھی چونکہ بیماری اس سطح پر پہنچ گئی ہے کہ اب بیمار کو ایک آخری انجیکشن دے اس کی قبر پر فاتحہ پڑھ لینی چاہئے. اب اگر یہی آخری حل رہ گیا ہے تو اس کے لئے تمام ان بیماریوں کو مکمل طور پر طشت از بام کرنا بہت ضروری تھا تاکہ ورثا کو انجیکشن کے لئے قائل کیا جاسکے. ان تمام مراحل کو طے کرنے کے لئے ایک انتہائی ماہر فزیشن، سرجن کی ضرورت تھی جو پاکستان کو عمران خان کی صورت میں میسر آگیا ہے.
عمران خان کو دوران حکومت اور حکومت سے نکالے جانے کے بعد ان تمام ان تمام خرابیوں، برائیوں اور بیماریوں کا مکمل ادراک ہوچکا تھا لیکن ورثا کو انجیکشن پر قائل کرنا بہت مشکل امر تھا. چنانچہ اس نے جیل جانا غنیمت سمجھا کہ وہ وہاں سے بیٹھ کر اس بدبودار نظام جس کی گھٹن آمیز بدبونے اس نظام کے سارے ورثا کو بیمار کرنا شروع کردیا ، کو اس کی تمام تر بیماریوں سمیت ورثا یعنی عوام اور کچھ دوسرے عزیز اور اقربا کے سا منے مکمل طور پر عیاں کردیا.
اس سلسلے میں خود عمران خان کی غیر قانونی قید، اس کی اہلیہ سمیت عدت اور توشہ خانہ جیسے بے سروپا اور بدنیتی پر مبنی مقد مات میں ملوث کرکے، ان کی ذاتی زندگی پر سوالات گھڑ کے ان کی تذلیل کرنا اور اس مہم میں بکاؤ میڈیا کو شامل کرنا، ڈیڑھ سو سے زائد مقدمات دائر کرنا اور اس تمام کئے دھرے میں عدالتوں کا انتہائی قابل نفرت کردار. انتخابا ت میں الیکشن میں الیکشن کمیشن سپریم کورٹ اور ضلعی انتظامیہ کی ملی بھگت نے کئی راز افشاء کردئے. الیکشن کے بعد جس دیدہ دلیری اور دادہ گیری سے سترہ سیٹیوں والی بندروں کی پارٹی کو اکثریت دلاکر حکومت میں لایا گیا اور جس طرح ان کو دو تہائی اکثریت دلانے کے لئے بے شرمی اور بے غیرتی کی ھر حد پار کی جارہی ہے، جس طرح کارکنوں خاص طور پر خاتون کارکنوں کو یکے بعد دیگرے مقدمات میں پھنسا کر جیلوں میں کر ہراساں اور متعلقین کو پریشان کیا جارہا ہے اور اب تازہ ترین جس طرح سے سپریم کورٹ میں ایڈہاک ججوں کی تقر ری کی جارہی ہے اور الیکشن کمیشن نے براہ راست مخصوص نشستیں کیس کا فیصلہ ماننے سے انکار کیا ہے اور جس طرح بدمعاش جنرلوں کی پشت پناہی ان سب عوامل کی ہمت افزائی کر رہی ہے اس نے اس دائمی مریض سے جڑی ہؤئ تمام ہمدردیاں ختم کردی ہیں. اس دائمی مرض کے تمام عوامل بشمول سر سے پاؤں تک کرپشن میں لتھڑے ہؤے سیاستدان، بدعنوان سول بیوروکریسی، غیر منصف ماتحت سے عدالت عالیہ اورعدالت عظمہ،لفافہ صحافی، بے قابو پولیس، اور ان سب کے سرخیل بدمعاش اور بےغیرت جنرل ان سب کو عوام نے مکمل طور پر پہچان لیا ہے. یہی وجہ ہے ان عوامل میں شامل ایک چھوٹی لیکن باشعور اور ایماندار اور غیرتمند اقلیت نے خود کو اب ورثا کی صف میں شامل کرنا شروع کردیا ہے اور اب حالات اس نہج تک پہنچ چکے ہیں کہ زہریلی انجکشن ناگزیر ہوچکی ہے.
وقت آگیا ہے کہ اس بدبودار دائمی مریض سے ہمیشہ کے لئے نجات حاصل کرلی جائے.