
بلوچستان میں سیکیورٹی خدشات کے باعث مزید دو جامعات نے غیر معینہ مدت کے لیے آن کیمپس کلاسز معطل کر دی ہیں اور طلبہ کو ورچوئل کلاسز میں شرکت کی ہدایت کی ہے۔ اس فیصلے کے بعد صوبے میں مجموعی طور پر تین جامعات میں تعلیمی سرگرمیاں معطل ہوگئی ہیں۔ متاثرہ جامعات میں یونیورسٹی آف بلوچستان، سردار بہادر خان ویمن یونیورسٹی اور یونیورسٹی آف تربت شامل ہیں۔
ذرائع کے مطابق، یہ فیصلہ حالیہ حملوں اور سیکیورٹی خطرات کے پیش نظر کیا گیا ہے۔ یہ اقدام سبی کے قریب جعفر ایکسپریس کو دہشت گردوں کے ہائی جیک کرنے کے چند دن بعد سامنے آیا ہے، جس حملے میں 18 سیکیورٹی اہلکاروں سمیت کم از کم 26 یرغمالی ہلاک ہو گئے تھے۔
یونیورسٹی آف بلوچستان کی جانب سے جاری نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ ڈینز اور سیکشنل ہیڈز کے ساتھ ایک اجلاس طلب کیا گیا، جس میں فیصلہ کیا گیا کہ اگلے احکامات تک تمام کیمپس ورچوئل لرننگ پر منتقل رہیں گے۔ نوٹیفکیشن میں فیصلے کی کوئی وجہ نہیں بتائی گئی، لیکن ذرائع کے مطابق یہ اقدام سیکیورٹی خدشات کی وجہ سے کیا گیا ہے۔
نوٹیفکیشن میں فیکلٹی ممبران کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ مطلوبہ ڈیجیٹل وسائل اور لرننگ مینجمنٹ سسٹم تک رسائی حاصل کرنے کے لیے موجودہ شناختی نمبروں کا استعمال کریں۔
یونیورسٹی آف بلوچستان کے وائس چانسلر ظہور احمد بازئی نے ڈان نیوز ڈاٹ ٹی وی کو بتایا کہ قومی شاہراہوں پر احتجاج کی وجہ سے دور دراز علاقوں سے طلبہ کیمپس تک نہیں پہنچ پا رہے ہیں، جس کی وجہ سے کلاسز آن لائن کر دی گئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جن علاقوں میں انٹرنیٹ تک رسائی کا مسئلہ ہے، وہاں کے طلبہ کو سیمسٹر کے دوران مراعات فراہم کی جائیں گی۔ آن لائن کلاسز کا فیصلہ عیدالفطر کے بعد کیا جائے گا۔
ظہور احمد بازئی نے کہا کہ ’جیسے ہی قومی شاہراہوں پر دھرنوں اور بندش کا مسئلہ حل ہو جائے گا، بلوچستان یونیورسٹی میں معمولات بحال ہو جائیں گے۔ ہمارا مقصد بچوں کو تعلیم فراہم کرنا ہے‘۔
سردار بہادر خان ویمن یونیورسٹی نے بھی اسی طرح کے فیصلے کا اعلان کرتے ہوئے ایک نوٹیفکیشن جاری کیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ طلبہ رمضان کے دوران آن لائن کلاسز میں شرکت کریں گے۔
یونیورسٹی آف تربت کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر گل حسن کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس کے بعد جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ موجودہ صورتحال کے پیش نظر تعلیمی سرگرمیاں اور کلاسز منگل سے معطل کر دی گئی ہیں۔ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ اجلاس میں تعلیمی اور انتظامی امور پر تبادلہ خیال کیا گیا، اور اس کے ساتھ ساتھ طلبہ کے ایک گروپ کی طرف سے یونیورسٹی کے انتظامی بلاک پر جاری ’غیر قانونی قبضے اور ناکہ بندی‘ کا بھی جائزہ لیا گیا۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ شرکا نے بیرونی عناصر کا داخلہ روکنے اور یونیورسٹی کے اثاثوں کے ساتھ ساتھ یہاں رہائش پذیر ملازمین اور طلبہ کی زندگیوں کی حفاظت کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ طلبہ کو 2 دن کے اندر ہاسٹلز خالی کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
رجسٹرار نے اجلاس کو طلبہ کی جانب سے ایڈمنسٹریٹو بلاک پر 13 مارچ سے جاری قبضے اور ناکہ بندی کے بارے میں آگاہ کیا۔ انہوں نے وضاحت کی کہ ڈسپلنری کمیٹی کے فیصلوں کے جواب میں طلبہ کے ایک گروپ نے داخلی دروازے کو تالا لگا دیا، مرکزی دروازے پر دھرنا دے کر عملے کو اپنے دفاتر میں داخل ہونے سے روک دیا ہے۔
رجسٹرار نے کہا کہ احتجاج کی وجہ سے طلبہ، فیکلٹی اور انتظامی عملے کو خاص طور پر رمضان کے مقدس مہینے میں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ یونیورسٹی نے معاملے کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کے لیے 13 مارچ کو سینئر فیکلٹی ممبرز کی ایک کمیٹی تشکیل دی تھی، جس نے احتجاج کرنے والے طلبہ سے ملاقات کی اور انہیں یقین دلایا تھا کہ ان کے جائز خدشات کو دور کیا جائے گا۔
تاہم، طلبہ نے ایڈمنسٹریٹو بلاک کی ناکہ بندی ختم کرنے سے انکار کرتے ہوئے اصرار کیا کہ ڈسپلنری کمیٹی کی جانب سے غیر قانونی سرگرمیوں پر سزا پانے والے طالب علم کی ہاسٹل الاٹمنٹ کو مذاکرات کی پیشگی شرط کے طور پر بحال کیا جائے۔
بلوچستان یونیورسٹی آف انفارمیشن ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اینڈ مینجمنٹ سائنسز نے طلبہ کے لیے ٹرانسپورٹ سروسز بند کر دی ہیں۔ تعلیمی سرگرمیوں کے بارے میں فیصلہ بدھ کو متوقع ہے، کیونکہ امتحانات جاری ہیں۔
یہ اقدامات بلوچستان میں تعلیمی سرگرمیوں کو متاثر کر رہے ہیں، اور طلبہ اور اساتذہ کو مشکلات کا سامنا ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ صورتحال معمول پر آنے کے بعد تعلیمی سرگرمیاں بحال کر دی جائیں گی۔