بچے پر باپ کی توجہ کی اہمیت

Amal

Chief Minister (5k+ posts)

بچے پر باپ کی توجہ کی اہمیت

نبی کریم ﷺ نے فرمایا ”باپ اپنی اولاد کو جو کچھ دیتا ہے اس میں سب سے بہتر عطیہ اس کی اچھی تعلیم و تربیت ہے“۔

جس طرح ماں کی ذمہ داری ہے کہ وہ بچے کی تربیت کا خیال رکھے۔ اسی طرح باپ کی ذمہ داری بھی ہے کہ وہ اپنی اولاد کی تربیت کی فکر کرے۔ جو باپ گھر کے ماحول کی طرف توجہ نہیں کرتا اور اولاد کی تربیت کی فکر نہیں کرتا اس کی اولاد بگڑ جاتی ہے جیسے بعض لوگوں کو اپنے کاروبار سے فرصت نہیں ملتی ان کے بچوں کی تربیت صحیح نہیں ہوتی۔ اس لئے کسی نے کہا کہ , یعنی کہ یتیم وہ نہیں ہوتا جس کے ماں باپ مر جاتے ہیں ، یتیم تو وہ ہوتا ہے جو علم اورعمل سے محروم کر دیا جاتا ہے۔

بچوں کو بلا ناغہ لازمی وقت دیں

یہ بات ذہن میں رکھئے کہ جس باپ کے پاس گھر میں وقت دینے کی فرصت نہیں اس کے بچے زندہ ہوتے ہیں مگر کسی یتیم سے کم بدنصیب نہیں ہوتے ہیں اس لیے کہ ان بیچاروں کی تربیت کبھی نہیں ہو پاتی۔ لہٰذا باپ کو چاہئے کہ اپنے نظام الاوقات میں جہاں اور کاموں کے لیے وقت مقرر کرتا ہے وہیں اپنے بچوں کے لیے بھی وقت ضرور متعین رکھے۔
والدین بچوں کیلئے ضرور وقت نکال کر ان سے ان کے دن بھر کے معملات پوچھیں اور رہنمائی کریں نہیں تو بہت بڑے خسارے کا سامنا کرنا پڑے گا بچے میں اچھے برے کی تمیز پیدا نہیں ہو گی اور وہ ماں باپ ، معاشرے کیلئے باعث تکلیف بن جائیں گے۔ بچوں کو انکے لئے، اپنے لئے اور معاشرے کیلئے نفع بخش بنائیں اور ماں باپ اپنے لئے صدقہ جاریہ بنائیں ۔

بچے کورے کاغذ کے مانند

دراصل بچے کورے کاغذ کے مانند ہوتے ہیں ان پر خوبصورت پھول بوٹے بنا نا یا الٹی سیدھی لکیریں لگانا یہ سب والدین کا کام ہوتا ہے اگر ماں باپ نے اچھی پرورش کی تو سب پھول بوٹے بن گئے اور اگر اس کی تربیت کا پتہ ہی نہیں تو پھر اس نے الٹی سیدھی لکیریں لگادیں اور گویا ان بچوں کو بگاڑنے میں معاون بن گئے۔ پرورش سے مراد یہ نہیں کہ بچے کا جسم بڑا کرنا ہوتا ہے بلکہ پرورش سے مراد یہ ہے کہ جس طرح جسم بڑھے، ساتھ ہی دل کی صفات بھی بڑھیں ، دماغی صلاحیتیں بھی کھل کر سامنے آئیں تو جو اچھے ماں باپ ہوتے ہیں وہ بچے کو صرف بڑا نہیں کرتے، اس کے دل کو بھی بڑا کرتے ہیں اور ان کے اندر ایسی سوچ پیدا کرتے ہیں کہ چھوٹی عمر ہی میں دماغی صلاحیتیں کھل کر سامنے آ جاتی ہیں۔ یہ دل و دماغ کی صلاحیتوں کو کھولنا ماں باپ کی ذمہ داری ہوتی ہے۔

بچوں سے ہمیشہ عزت سے پیش آئیں اور سب بچوں سے برابری کا سلوک کریں

بچوں سے عزت سے پیش آنا اور تمیز سے بات کرنا بہت ضروری ہے ، اس عمل پر پابند رہنا ضروری ہے بچے ویسا ہی بنیں گے جیسا آپ ان سے رویہ رکھیں گے ۔ یاد رکھئیے سب بچے ایک جیسی صلاحیت لے کر پیدا نہیں ہوتے کوئی پڑھائی میں اچھا ہوتا ہے تو کوئی فرما بردار زیادہ ہوتا ہے ، کسی بچے کے ساتھ اس کی صلاحیت کی وجہ سے امتیازی سلوک نہ کریں ! سب سے ایک سلوک رکھیں ۔ برابری کا سلوک کرنے سے بچوں میں سکون پیدا ہوگا اور بچے زندگی میں مثبت رہنے کا طریقہ اختیار کریں گے اس طرح بچوں کے دل کشادہ ہونگے ان کی زندگی اور آخرت بے حد آسان ہو جائے گی ۔

صفائی کی عادت

بچے کو بچپن سے ہی صفائی ستھرائی سے رہنا سکھائیں۔ یہ ماں باپ کی ذمہ داری ہے کہ ان کو بات سمجھائیں کہ اللہ رب العزت پاکیزہ رہنے والوں سے محبت فر ماتے ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے
واللہ یحب المتطھرین
یعنی کہ ،اور اللہ تعالیٰ پاک رہنے والوں سے محبت فرماتے ہیں ، کہیں فر مایا
الطھور شطر الایمان
یعنی کہ پاکیزگی آدھا ایمان ہے. اگر آپ بچے کو اچھی طرح سمجھائیں گے تو پھر بچہ صاف رہنا پسند کرے گا۔ چنانچہ اچھے لوگ پیدا نہیں ہوتے بلکہ اچھے لوگ تیار کئے جاتے ہیں ، ماں اپنی گود میں لوگوں کو اچھا بنا دیا کرتی ہے۔گر می کے موسم میں بچے کو روزانہ غسل کروائیں ، کپڑا گندہ دیکھیں تو فوراً بدل دیں ، بستر ناپاک ہر گز نہ رہنے دیں ،فوراً اسے پاک و صاف کریں ،بہر حال بچے کی یہ ڈیوٹی تو ادا کرنی پڑتی ہے اور اسی پر ماں کو اس کا اجر و ثواب ملتا ہے لہٰذا بچوں کی صفائی کا خاص خیال رکھیں۔

بات کرنے کا ادب سکھائیں

بعض بچے ’تو‘، ’تم‘ وغیرہ کہہ کر بات کرتے ہیں ان کو نرمی اور پیار و محبت سے سمجھائیں کہ بیٹا ’آپ ‘ کہنے سے محبت بڑھتی ہے۔ لہٰذا چھوٹوں کو بھی آپ کہو بڑوں کو بھی آپ کہو۔ بچہ ’ ہاں ‘ کہے تو اس کو سمجھائیں کہ بیٹا جی ہاں کہنے میں زیادہ محبت ہے۔ اس طرح چھوٹی چھوٹی باتیں بچہ گود میں سیکھتا ہے اور پھر وہ اسے یاد رہتی ہیں۔ یاد رکھئے کہ بچپن کی سیکھی ہوئی باتیں انسان کو بڑی عمر میں بھی نہیں بھولا کرتیں بلکہ ساری زندگی یاد رہتی ہیں۔ اس لئے بچوں کی تربیت اچھی طرح کریں۔

خود نماز کی پابندی

سورہ طہ میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے
وَأْمُرْاَھْلَکَ بِالصَّلٰوۃِ وَاصْطَبِرْ عَلَیْھَا
یعنی کہ ،اور اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم دو اور خود بھی اس کی پابندی کرو،
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے عجیب ترتیب رکھی ہے۔ بظاہر یہ ہونا چاہئے تھا کہ پہلے خود نماز قائم کرو اور پھر اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم دو۔ لیکن یہاں ترتیب الٹ دی ہے کہ پہلے اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم کرو اور پھر خود بھی اس کی پا بندی کرو اس ترتیب میں اس بات کی طرف اشارہ فرما دیا کہ تمہارا اپنے گھر والوں کو یا اولاد کو نماز کا حکم دینا اس وقت تک مؤثر اور فائدہ مند نہیں ہو سکتا جب تک کہ تم ان سے زیادہ نماز کی پابندی نہیں کرو گے۔ اب زبان سے تو تم نے ان کو کہہ دیا کہ نماز پڑھو لیکن اگر خود اپنے اندر نماز کا اہتمام نہیں ہے تو ایسی صورت میں ان کو نماز کیلئے کہنا بالکل بیکار مانا جائے گا۔ لہٰذا اپنے گھر والوں اور اپنی اولاد کو نماز کا حکم دینے کا ایک لازمی حصہ یہ ہے کہ ان سے زیادہ پابندی خود کرو اور ان کیلئے ایک مثال اور نمونہ بنو۔اللہ کے نبی نے فر مایا :کہ بچہ جب سات بر س کا ہو جائے تو اس کو نماز کا حکم کرو اور جب دس برس کا ہو جائے تو نماز نہ پڑھنے پر اس کو مارو۔ سات سال کے بچے پر نماز فرض نہیں ہے لیکن ابھی سے نماز کا حکم اس لئے دیا جا رہا ہے کہ اس کو نماز کی عادت پڑ جائے۔ جب اس عمر میں نماز کی عادت پڑ جائے گی تو بالغ ہو نے تک اس کی عادت برقرار رہے گی اور پھر زندگی میں کبھی نماز نہیں چھوڑے گا۔چونکہ نماز بڑی اہم عبادت اور اسلام کا اہم فریضہ ہے۔آج بچے بالغ اور بڑے ہو کر بھی نماز نہیں پڑھتے اس لئے کہ بچپن سے نہ تو نماز کی عادت ڈالی گئی نہ ہی اس کی اہمیت بتائی گئی۔ بچوں کو تو کیا بتاتے بڑے ہی نماز نہیں پڑھتے۔

بچوں کو مت سکھاؤ جھوٹ

حدیث شریف میں ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک خاتون نے اپنے بچے کو گود میں لینے کیلئے بلایا بچہ آنے میں تردد کر رہا تھا، تو اس خاتون نے کہا کہ ہمارے پاس آؤ، ہم تمہیں کوئی چیز دیں گے،اب وہ بچہ آ گیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خاتون سے پو چھا کہ تم نے بچے کو یہ جو کہا کہ تم ہمارے پاس آؤ ہم تمہیں کچھ دیں گے تو کیا تمہاری واقعی کچھ دینے کی نیت تھی ؟ اس خاتون نے جواب دیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس ایک کھجور تھی اور یہ کھجور اس کو دینے کی نیت تھی۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا اگر دینے کی نیت نہ ہوتی تو یہ تمہاری طرف سے بڑا جھوٹ ہوتا اور گناہ ہوتا۔اس لئے کہ تم بچے سے جھوٹا وعدہ کر رہی ہوتی گویا اس کے دل میں بچپن سے یہ بات ڈال رہی ہوتی کہ جھوٹ بولنا، وعدہ خلافی کرنا کوئی ایسی بری بات نہیں ہوتی جس سے گناہ ہو جائے۔

کیا ہے محبت کی حد ؟

بچے کی تربیت چھوٹی چھوٹی چیزوں سے شروع ہوتی ہے، اس سے اس کا ذہن بنتا ہے، اسی سے اس کی زندگی بنتی ہے اور یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔ آج کل یہ عجیب منظر دیکھنے میں آتا ہے کہ ماں باپ کے اندر بچوں کو غلط باتوں پر ٹوکنے کا رواج ہی ختم ہو گیا ہے۔ آج سے پہلے بھی ماں باپ بچوں سے محبت کرتے تھے، لیکن وہ عقل اور تدبیر کے ساتھ محبت کرتے تھے۔ لیکن آج کل یہ محبت اور لاڈ اس درجے تک پہنچ چکا ہے کہ بچے کتنے ہی غلط کام کرتے ر ہیں ، غلط حرکتیں کرتے رہیں ، لیکن ماں باپ ان غلطیوں پر ٹوکتے ہی نہیں ، ماں باپ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ نادان بچے ہیں ان کو ہر قسم کی چھوٹ ہے، ان کو روک ٹوک کی ضرورت نہیں۔ سوچنا تو یہ چاہئے تھا کہ اگر بچے نادان ہیں مگر والدین تو نادان نہیں ہیں لہٰذا ان کا فرض ہے کہ ان کو تربیت کریں ، اگر کوئی بچہ ادب کے خلاف یا شریعت کے خلاف کوئی غلط کام کر رہا ہے تو اس کو بتانا ماں باپ کے ذمے فرض ہے۔اس لئے کہ وہ بچہ اگراسی طرح بد تہذیب بن کر بڑا ہو گیا تو اس کا وبال والدین کے سر ہے کہ انہوں نے اس کو ابتدا سے ہی اس کی عادت نہیں ڈالی۔ بہرحال اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بچوں کی چھوٹی چھوٹی حرکتوں پر بھی نظر رکھ لی جائے۔

برے دوستوں سے بچانا

ایک بات اور ذہن میں رکھیں کہ بچوں کو برے دوستوں سے بچانے کا اہتمام کریں۔یاد رکھنا چاہئے کہ بچے اپنے دوستوں سے اتنا کچھ سیکھتے ہیں کہ جن باتوں کا ماں باپ تصور بھی نہیں کر سکتے۔بچے کے دوست اگر اچھے ہوں گے تو بچے کی کشتی کنارے لگ جائے گی اور اگر دوست برے ہوں تو بچے کی کشتی کو ڈبو کر رکھ دیں گے۔ایک انسان کودوست ہی بناتے اور بگاڑ دیتے ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا:
المرء علیٰ دین خلیلہ
یعنی کہ انسان تو اپنے دوستوں کے دین پر ہوتا ہے، اس لئے اس بات کا خاص خیال رکھنا چاہئے۔

سلام اور شکریہ کی عادت

چھوٹے بچوں میں سلام کر نے کی عادت ڈالیں ، ان کو بتائیں کہ بڑوں کو دیکھ کر سلام کرنی چاہیے۔ سلام کے الفاظ بچوں کو سکھائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ تم سلام کو عام کرو اور اس کا ایک دوسرے کے درمیان رواج دو۔ لہٰذا ماں باپ کو چاہئے کہ بچے کو سلام کرنے کا عادی بنائیں۔اس سے بچے کے دل میں جھجک دور ہو جاتی ہے اور بچہ ڈپریشن سے بھی محفوظ رہتا ہے، دوسروں کو دیکھ کر خوفزدہ نہیں ہوتا بلکہ اس کو سلام کر نے کی عادت پڑنے سے اس میں اخلاق حسنہ، خود اعتمادی اور عزم و ہمت کی صفات پیدا ہوتی ہیں۔ اس لیے ماں باپ کو چاہئے کہ بچے کو سلام کرنے کا طریقہ سکھائیں تاکہ بچے کے دل سے مخلوق کا ڈر دور ہو جائے اور بچے کے اندر جرأت آ جائے اور بزدلی سے بچ جائے۔ اسی طرح بچے میں شکریہ کی عادت بھی بچپن سے ہی پیدا کریں۔ چھوٹی عمر کا ہو تو کیا ہوا اس کو آہستہ آہستہ یہ بات سمجھائیں کہ جب تم سے کوئی نیکی کرے، بھلائی کرے، تمہارے کام میں تعاون کرے، تو بیٹے اس کا شکریہ ادا کرو۔ اس طرح جب وہ انسانوں کا شکریہ ادا کرے گا تو پھر اس کو اللہ کا شکر ادا کرنے کا سبق بھی مل جائے گا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے
من لم یشکر الناس ولم یشکر اللّٰہ
کہ جو انسانوں کا شکریہ ادا نہیں کرتا وہ اللہ کا بھی شکریہ ادا نہیں کر تا، تو یہ شکریہ کی عادت اپنے بچوں میں ڈالنی چاہئے۔ عجب بات ہے ہمیں اس بات کا اتنا زیادہ حکم دیا گیا مگر آج شائد ہی کوئی ماں ہو جو اپنے بیٹے کو شکریہ کے الفاظ سکھائے۔ جزاکم اللّٰہ، جزاک اللّٰہ خیراً یہ الفاظ اپنے بچوں کو سکھائیں تاکہ بچوں کو صحیح سنت کے مطابق شکریہ ادا کرنے کے الفاظ آ جائیں۔

دل آزاری سے اجتناب

بچے کو یہ سکھائیں کہ نیکیوں میں سے ایک بڑی نیکی یہ بھی ہے کہ کسی کو دکھ نہیں دینا، کسی کو تکلیف نہیں دینا،بچے چھوٹے ہوتے ہیں اور ایک دوسرے سے جلد جھگڑ پڑتے ہیں۔ لیکن جب آپ بچے کو سکھائیں گے کہ کسی کو تکلیف نہ دینا،کسی کا دل نہیں دکھانا، تو ایسا کرنے سے بچے کے دل میں اس کی اہمیت آئے گی کہ دوسروں کا دل دکھانا اللہ کو بہت نا پسند ہے جبکہ بیماریوں میں سے سب سے بڑی بیماری دل کی بیماری ہے اور روحانیت میں سب سے بڑی بیماری دل آزاری ہے اور دوسرے کے دل کو دُکھانا آج سب سے آسان کام بن گیا ہے۔ حالانکہ اللہ کے ہاں سب سے بڑا گناہ یہی ہے کہ کسی بندے کے دل کو دُکھا دیا جائے۔

معافی مانگنے کا احساس دلانا

اگر بچہ کبھی کسی سے لڑ پڑے تو آپ دیکھیں غلطی کس کی ہے اس کو پیار سے سمجھائیں کہ غلطی کی معافی مانگ لو تاکہ قیامت کے دن اللہ رب العزت کے سامنے تمہاری یہ غلطی پیش نہ ہو، بچے کو معافی مانگنے کی فضیلت سنائیں ، معافی مانگنے کا طریقہ بتائیں تاکہ وہ بلا جھجک ہو کر معافی مانگنے کا عادی ہو جائے۔ غلطیاں چھوٹوں سے بھی ہوتی ہیں اور بڑوں سے بھی،بچے کو سمجھائیں کہ جب بھی غلطی ہو جائے تو اسی وقت معافی مانگ لینی چاہئے، اپنے بہن بھائیوں سے اگر بد تمیزی کرے یا ان کو تکلیف دے یا جھگڑا کریں تو ان سے بھی معافی مانگے۔اس کے بعد اس سے کہیں اللہ سے بھی معافی مانگ لو تا کہ اللہ تعالیٰ آپ سے ناراض نہ ہوں۔ہر وقت اللہ کی ناراضگی کے بارے میں یہ بات ڈالنا کہ نیک کام کرنے سے اللہ خوش ہو تا ہے اور لڑائی جھگڑے اور برے کاموں سے اللہ ناراض ہوتا ہے، حتی کہ بچے کے دل میں یہ حقیقت اُتر جائے کہ اللہ کی ناراضگی سب سے بری چیز ہے۔یہ بچے کی تر بیت کیلئے سب سے زیادہ ضروری ہے۔ اس کے برعکس آج یہ ہوتا ہے کہ اگر اپنا بچہ کسی دوسرے بچے سے جھگڑ پڑے تو اپنے بچے کی غلطی کے با وجود دوسرے کے بچے کو ڈانٹا جاتا ہے اور نا حق اپنے بچے کی غلطی سے چشم پو شی کی جا تی ہے، جس سے یہ لڑائی چھوٹوں سے شروع ہو کر بڑوں تک پہنچ جاتی ہے۔ بچے میں اچھی عادت پیدا کرنا: جب بچہ کئی گھنٹے با ہر گزار کر گھر واپس آئے تو اس بچے کو اس موقع پر ایسی محبت دینی ہے کہ بچے کے اندر اچھی عادتیں جم جائیں اور بری عادتیں اس سے دور ہو جائیں۔ اس لئے جب بچے اسکول سے آتے ہیں اُس وقت یہ چند منٹ کی ڈیوٹی جس عورت نے بھی ادا کر دی اس کے بچے ساری زندگی نیک بنیں گے، مؤدب بنیں گے اور ماں کے ساتھ محبت کرنے والے بنیں گے۔ بچے کبھی نہیں بھول سکتے کہ جب ہم اسکول سے آتے تھے امی ہمیں کتنا پیار کرتی تھیں۔ جب آپ بوڑھی ہو جائینگی، بچے جوان ہو جائیں گے تو پھر بچے ان کی خوشی کا خیال رکھیں گے، جتنا آپ نے ان کا خیال رکھا، لہٰذا یو ں سمجھ لیجئے کہ میں نے آپ کو ایک تحفہ دیدیا آپ اس پر عمل کر لیجئے اور پھر اس کے اثرات بچوں میں خود دیکھیں گی۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مطہرہ

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فر ما ہیں ، امام حسن رضی اللہ عنہ تشریف لائے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بڑے نواسے حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا کے فرزند ہیں ، بچے ہی تھے، آپ نے ان کا بوسہ لیا، پیار کیا، اس وقت ایک صحابی اقرع ابن حابس، رضی اللہ عنہ، جو تمیمی بنو تمیم کے آدمی تھے، بیٹھے تھے ۔ وہ یہ سب کچھ دیکھ کر حیران ہو گئے کہنے لگے ، اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم، میرے تو دس بچے ہیں اور میں نے کبھی کسی کو اس طرح پیار نہیں کیا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا
مَنْ لَایَرْحَمْ لَاْیُرْحَمْ
کہ جو آدمی رحم نہیں کرتا اللہ اس پر رحم نہیں فر ماتے، ایک اور مرتبہ ایسا ہوا کہ ایک اعرابی نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بچوں کو پیار کر رہے ہیں تو کہنے لگا ، اے اللہ کے بنی صلی اللہ علیہ وسلم، میں تو بچوں کو ایسا پیار نہیں کرتا جیسے آپ کرتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اگر تیرے دل سے اللہ نے رحمت کو نکال لیا اور تجھے اس سے محروم کر دیا تو کوئی کیا کرے؟ تو معلوم ہوا کہ بچوں سے پیار کرنا انسانی فطرت ہے لہٰذا بچوں کو پیار دینا چاہئے ۔

محبت پر جنت کی بشارت

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس ایک عورت آئی۔ اس کے ساتھ دو بچے تھے، جن کو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے تین کھجوریں کھانے کو دیں۔ ان بچوں کی ماں نے ایک کھجور ایک بچے کو دی اور دوسراکھجور دوسرے بچے کو دی اور تیسرے کھجور کے دو ٹکڑے کئے اور آدھا ایک بچے کو اور آدھا دوسرے بچے کو دے دیا۔بچوں نے اس کو بھی کھا لیا اور خوش ہو گئے۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے یہ پورا واقعہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سنایا کہ ماں کی محبت دیکھئے کہ اس نے خود نہیں کھایا بلکہ اپنا حصہ بھی بچوں میں ہی تقسیم فر ما دیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا کہ اللہ نے اس عورت پر جنت کو واجب کر دیا۔ سبحان اللہ تو ماں جب بچوں کو اس طرح محبت کرتی ہے اس کے بدلے اللہ اس ماں کو جنت عطا فرما دیتے ہیں یا د رکھئے حدیث پاک میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نر می پر وہ رحمتیں نازل فر ما دیتا ہے جو سختی پر نازل نہیں فر ماتا۔ اس لئے بچے کی تر بیت کرتے ہوئے ان باتوں کا خاص خیال رکھا جائے۔

بچے کو توحید کی تعلیم

ایک اور بڑا اہم نقطہ یہ ہے کہ بچے کے دل میں بچپن سے ہی ایمان کو مضبوط کیجئے، تو حید کا تصور مضبوط کیجئے، بچے کے دل میں اللہ پرتو کل پیدا کرنے کی کوشش کیجئے۔ یہ ماں کے اختیار میں ہوتا ہے کہ وہ ایسی تر بیت کرے کہ بچے کے دل میں ڈر بھی اللہ رب العزت کا ہو،امیدیں ہوں تو اللہ سے ہوں ، محبت ہو تو اللہ کی ہو، توحید اس کے ذہن میں رچ بس جائے اور وہ انسان، وہ بچہ اللہ سے والہانہ محبت کرنے والا بن جائے۔ہمارے پہلے وقت کی اچھی مائیں ان باتوں کا خاص خیال رکھا کرتی تھیں۔لیکن اس معاملے میں موجودہ دور کے ماں باپ کوئی توجہ ہی نہیں دے رہے ہیں۔ اگر آج کے والدین خصوصاً بچے کی ماں اس طرح تر بیت کا اہتمام کرے تو اس کی آغوش میں پلنے والے بچے بھی اللہ کے ولی اور نیک بنیں گے اور ایک ہی وقت پران کے لیے دارین یعنی اس دنیا کے ساتھ ساتھ آخرت میں بھی راحت کا ذریعہ بنیں گے بلکہ ان سے اس دنیا میں اللہ کی مخلوق کو بھی فائدہ نصیب ہو گا۔ والدین کی اہم ترین ذمہ داری یہی ہے کہ وہ اپنے بچوں کے تئیں امانت دادی کا معاملہ اختیار کریں ، امانت دادی یہی ہے کہ وہ صحیح تربیت کو اپنے بچوں میں جذب کرنے کی حتی المقدور کوشش کریں تاکہ خدا کے دربار میں ان کی طرف سے حق کی ادائیگی میں کوئی کوتاہی نہ لکھی جائے۔ والدین کو یہ ذمہ داری نبھانی ہے یعنی بچوں کی صحیح تربیت کرنی ہے باقی ہدایت سے سرفراز کرنا اللہ رب العزت کا کام ہے۔ اس لئے صحیح تربیت کے ساتھ ساتھ اللہ تبارک و تعالیٰ کے حضور میں صالح اولاد کی بھی دعا کرتے رہنا چاہئے ۔ اللہ رب العزت ہم سب کو دین پر چلنے کی توفیق عطا فر مائے۔ اور ہمیں ہماری اولاد کی تربیت صحیح طریقے سے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اور ان کو ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک بنائے۔

رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّيّٰتِنَا قُرَّةَ اَعْيُنٍ وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِيْنَ اِمَامًا
(الفرقان 74)

. ’’اے ہمارے ربّ ، ہمیں اپنی بیویوں اور اپنی اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک دے اور ہم کو پرہیز گاروں کا امام بنا‘‘