بھارت،بنگلادیش سے آرڈرز کی منتقلی،پاکستانی ٹیکسٹائل برآمدات میں اضافہ متوقع

3textile.jpg

امریکی جریدے بلومبرگ کی رپورٹ نے پاکستان سے متعلق اہم انکشاف کردیا، رپورٹ کے مطابق پاکستان کی برآمدات کا تقریباً 60 فیصد ٹیکسٹائلز ہیں، اور 2020 میں جب عالمی وبا پھیلی تو ملک نے اپنی فیکٹریوں کو بھارت اور بنگلا دیش سے پہلے کھولنے کی اجازت دی، جس سے اس نے ٹارگٹ کارپوریشن اور ہینس برانڈز انکارپوریشن سمیت عالمی برانڈز سے آرڈرز لیے۔

بلومبرگ کے مطابق ٹیکس میں چھوٹ، سستے قرضے اور جنوبی ایشیا میں حریفوں کے مقابلے میں بجلی کی فراہمی سمیت دیگر اقدامات کے ذریعے حکومت ٹیکسٹائل برآمدات کو دوگنا کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور اس حوالے سے 2018 سے امریکی ڈالر کے مقابلے مقامی کرنسی میں 60 فیصد کمی نے بھی مدد کی ہے۔


بلومبرگ کے مطابق وزیراعظم عمران خان کے مشیر تجارت عبدالرزاق داؤد نے کہا کہ ٹیکسٹائل کی برآمدات جون میں ختم ہونے والے 12 مالی مہینوں میں ایک سال پہلے کے مقابلے میں 40 فیصد اضافے کے ساتھ 21 ارب امریکی ڈالر تک پہنچنے کے لیے تیار ہیں،یہ تعداد اگلے مالی سال میں 26 ارب امریکی ڈالر تک بڑھ جائے گی،جو گزشتہ سال کی ملک کی کل برآمدات کو پیچھے چھوڑ دے گی۔

بلومبرگ کے مطابق ٹیکسٹائل کی صنعت، جو امریکا اور یورپ میں خریداروں کے لیے ڈینم جینز سے لے کر تولیے تک سب کچھ فراہم کرتی ہے، ملک کے چند روشن اقتصادی پہلوؤں میں سے ایک ہے،عالمی وبا کے دوران بہت سارے آرڈر درحقیقت بنگلا دیش اور بھارت سے پاکستان منتقل کیے گئے تھے،حکومت افریقا، جنوبی امریکا اور وسطی ایشیا جیسی نئی منڈیوں میں برآمدات کے لیے مراعات فراہم کرنے کے لیے اگلے ماہ ایک پروپوزل کا اعلان کرنے کا بھی ارادہ رکھتی ہے۔

اسماعیل اقبال سیکیورٹیز کے سی ای او احفاظ مصطفی نے جریدے کو بتایا کہ گزشتہ چند سالوں میں پاکستان کی برآمدات مسابقتی ہو گئی، انرجی ٹیرف کا ایک مقررہ نظام ہے جو علاقائی قیمتوں کو ذہن میں رکھتا ہے۔ حکومت برآمد کنندگان کے ذمے واجب الادا رقم واپس کرنے میں بہت تیزی سے کام کر رہی ہے اور کرنسی کی قدر میں بڑی کمی واقع ہوئی ہے۔

بلومبرگ کے مطابق پاکستان اپنی برآمدات میں اضافے کے لیے کوشاں ہے کیونکہ وہ باقاعدہ تیزی سے بڑھنے والے معاشی بحرانوں سے نکلنے کے لیے 1980 کی دہائی کے آخر سے لے کر اب تک 13 بار آئی ایم ایف سے مدد طلب کر چکی ہے۔

پاکستان کے مشیر تجارت کا کہنا ہے کہ ملک کی ریکارڈ بلند درآمدات کے بارے میں زیادہ کچھ نہیں کیا جا سکتا ہے کیونکہ ان کا زیادہ حصہ بنیادی طور پر پیٹرولیم مصنوعات اور ویکسینز کی خریداری ہیں،اگر تیل 100 امریکی ڈالر فی بیرل تک پہنچتا ہے تو پاکستان "دباؤ میں" ہو گا۔

مشیر تجارت نے امید ظاہر کی کہ گھریلو فصل کی کٹائی کے بعد اس سال خوراک سے متعلق درآمدات میں کمی آئے گی،پاکستان مختلف معاہدوں پر دستخط کرکے اور ٹرکوں کی آزادانہ نقل و حرکت کی اجازت دے کر وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ تجارت کو تیز کرنے کی کوشش بھی کر رہا ہے،رواں مالی سال کے چھ ماہ میں تجارت بڑھ کر 120 ملین امریکی ڈالر تک پہنچ گئی ہے جو پچھلے سال کے 14 ملین امریکی ڈالر تھی۔