بھارت سندھ طاس معاہدے سے نکل گیا ہے تو پاکستان بھی شملہ معاہدے سے نکل جائے

screenshot_1745784095705.png



سینئر صحافی اور تجزیہ کار حامد میر نے ایک حالیہ گفتگو میں کہا ہے کہ اگر بھارت سندھ طاس معاہدے سے باہر نکل چکا ہے تو پاکستان کو بھی شملہ معاہدے سے دستبردار ہو جانا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ سندھ طاس معاہدے میں دو واضح آپشنز دیے گئے ہیں: ایک "نیوٹرل ایکسپرٹ" یعنی غیرجانبدار ماہر اور دوسرا "ثالثی عدالت" یعنی کورٹ آف آربیٹریشن۔


حامد میر نے کہا کہ جب بھارت نے کشن گنگا ڈیم بنایا، جو کہ سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی تھی، تو پاکستان یہ معاملہ ثالثی عدالت لے گیا۔ دی ہیگ کی ثالثی عدالت میں پاکستان نے بھارت کے خلاف مقدمہ دائر کیا، اور یہ پاکستان کے لیے ایک قانونی راستہ تھا جسے اس نے استعمال کیا۔


انہوں نے کہا کہ پاکستان نے ہمیشہ سندھ طاس معاہدے کے تحت جب بھی بھارت نے خلاف ورزی کی، ورلڈ بینک سے رجوع کیا۔ کبھی پاکستان کو انصاف ملا، کبھی نہیں۔ بعض اوقات بھارت نے ورلڈ بینک کو نظرانداز کر کے پاکستان سے کہا کہ دونوں ممالک مل بیٹھ کر دوطرفہ مذاکرات کے ذریعے مسئلہ حل کریں۔


حامد میر کے مطابق، سلال ڈیم کی مثال سامنے ہے۔ جب پاکستان نے سلال ڈیم کے خلاف ورلڈ بینک سے رجوع کیا، تو بھارت نے تجویز دی کہ ورلڈ بینک کو چھوڑ کر براہ راست مذاکرات کیے جائیں۔ بعد ازاں بھارت نے سلال ڈیم کے ڈیزائن میں تبدیلی کی، اس کی اونچائی کم کی گئی، اور پاکستان و بھارت کے درمیان ایک دوطرفہ معاہدہ ہوا، جس کے بعد بھارت نے یہ ڈیم تعمیر کیا۔ تاہم کشن گنگا ڈیم، بگلیہار ڈیم سمیت کچھ معاملات ایسے بھی ہیں جن پر دونوں ممالک میں ابھی تک فیصلہ نہیں ہوا۔
https://twitter.com/x/status/1916545025787265125
حامد میر نے نشاندہی کی کہ جب بھی پاکستان نے عالمی بینک کا دروازہ کھٹکھٹایا، اسے کبھی ریلیف ملا اور کبھی نہیں، مگر اب جبکہ بھارت سندھ طاس معاہدے سے باہر نکل چکا ہے، تو پاکستان کے پاس ایک واضح راستہ باقی رہ جاتا ہے، اور وہ ہے شملہ معاہدے سے علیحدگی۔


انہوں نے خبردار کیا کہ اگر پاکستان شملہ معاہدے سے باہر نکلتا ہے تو اس کے اثرات بھارت کے لیے نقصان دہ ہو سکتے ہیں، کیونکہ اس سے لائن آف کنٹرول کی حیثیت ختم ہو کر صرف ایک "سیزفائر لائن" رہ جائے گی۔ اس صورتحال میں سابقہ ریاست جموں و کشمیر کا متنازعہ درجہ بھی ختم ہو سکتا ہے۔


حامد میر نے مزید کہا کہ لائن آف کنٹرول کی بین الاقوامی حیثیت ہے، جس پر دونوں ممالک کچھ بین الاقوامی ذمہ داریوں کے پابند ہیں، لیکن اگر شملہ معاہدہ ختم ہو جاتا ہے تو پھر نہ کوئی ایل او سی باقی رہے گی، نہ کوئی پابندیاں۔ "پھر جو جانا چاہے جائے، جو آنا چاہے آئے"، کیونکہ سیزفائر لائن اور لائن آف کنٹرول میں زمین آسمان کا فرق ہے۔
https://twitter.com/x/status/1916817599830389125
 
Last edited by a moderator:

Back
Top