Shawal Ahmad
Citizen

آج ہم ذرا تاریخ پر نظر دوڑاتے ہیں اور کچھ سبق حاصل کرتےہیں۔ شاید کسی کو عقل آ جائے
أبو إسحاق محمد بن هارون الرشيد العروف المعتصم بالله جو کر عباسیوں کا سینتیسواں اورآخری خلیفہ تھا۔ جو کہ نہایت نفیس طبیعت کا حامل شخص تھا۔ ہر وقت علم و گو اور مطالعہ کا عادی تھا۔ جیسا کہ مسلمان حکمرانوں کو خاصہ ہے۔ یہ بھی ہیرے جوہرات کا بہت ہڑا شوقین تھا۔ اس کی سب سے بڑی کمزوری جو تھی وہ یہ تھی کے اس نے اپنی دفاعی طاقت پر توجہ نہیں دی تھی۔ جس کا خمیازہ اس کی عوام کو بھگتنا پڑا۔ اس کی قوم اور یہ ہر وقت فضول باتوں میں مصروف اس کے عقل سے عاری
وزیر اِس وقت کے ویلے دانشوروں جیسے تھے۔ ان کی فضول گوئی کا یہ عالم تھا جب ہلاکوخان نے ان لوگوں پر حملہ کیا تو یہ
اس بات کی ریسرچ کر رہے تھے کے اونٹ کو سوئی کے سوراخ میں سے کیسے گذارا جائے ۔۔ خیر ان فضول باتوں کو بیان کرنا میں بھی اب گوارہ نہیں کروں گا۔ اس کی عقل کو ٹھیس پہنچانے والوں میں سرَفہرست اس کا ایک وزیر جس کا نام الکمی تھا۔
یہ اپنے اس وزیر پر اندھا یقین کرتا تھاجبکہ الکمی آج کل کے کچھ وزیروں کی طرح اس کے دشمن ہلاکوخان سے ملا ہوا تھا۔
الکمی نے اس کو اپنی فوج کا بجٹ کم کرنے کی تجویز دی۔ اور ساتھ ساتھ المعتصم بالله کو فوج کی تعداد کم کرنے کے بارے میں کہتا رہا۔ تاکہ ہلاکوخان کو اچھا پیغام پہنچے۔ الکمی نے المعتصم بالله کی نفیس اور عیاش طبعیت کو دیکھ کر اسے یہ کہا
تھا کہ آپ کے محلات کا خرچہ کافی زیادہ ہے سو ہمیں آپ کا بجٹ کاٹنا پڑے گا، جس پر المعتصم بالله نے کہا کے میں
نے تو ابھی اور ہیرے جواہرات خریدنے ہیں۔ تو الکمی نے پوچھا کہ سب سے زیادہ خرچہ کس چیز پر آ رہا ہے تو المعتصم بالله نے کہا دفاع پر، تو الکمی نے مشورہ دیا کے فوج کم کریں یا اپنا بجٹ۔ اور بلآخر المعتصم بالله نے اپنے دفاع کا بجٹ کم
کیا اور فوج کی تعداد کو نوے فیصد تک کم کردیا۔
جیسا کہ آج کل کچھ نیم دانشور کہہ رہے ہیں کے فوج کا بجٹ کم کیا جائے۔ جو کہ سراسر غلط ہے۔
الکمی نے المعتصم بالله کو ایسا مکھن لگایا کہ آج بھی یہ ہمارے لیے سبق ہے۔ اس نے کہا کہ ہماری فوج کا ایک ایک بندہ
قوت ایمانی سے اتنا سرشار ہے کہ منگولوں کے دس بندوں کا مقابلہ کر سکتا ہے۔ اور المعتصم بالله اس کی ان چپڑی چوپڑی
باتوں میں آجاتا ہے۔
آخر وہ وقت بھی آتا ہے جب ہلاکوخان اورالمعتصم بالله کا ٹاکرہ ہوتا ہے۔ تو ہلاکوخان اس پرطنز کے تیر برساتا ہے اور پوچھتا
ہے کہ تم نے اتنے ہیرے جواہر اور مال ودولت اکھٹی کی ہوئی ہے فوج پر پیسہ کیوں نہ لگایا تو جناب نے ہم پاکستانیوں جیسا
بیان داغ دیا اور فرمایا کہ یہ اللہ کی مرضی تھی۔ تو ہلاکوخان نے بھی تاریخی الفاظ بولے کے اگر میں تمہارہ سر تن سے
جدا کر دوں تو کیا یہ اللہ کی مرضی نہ ہوگی۔ تو المعتصم بالله کے پاس بھی شکست خوردہ نظروں کے علاوہ کوئی جواب نہ
تھا۔ ہلاکو خان بھی المعتصم بالله کے ساتھ کچھ دن اپنا طنزومزاح جاری رکھتا ہے۔
ہلاکوخان المعتصم بالله کو اپنے دربار میں دعوت کے لیے بلا لیتا کے کچھ شغل لگ جائے۔ وہ اپنے لیے تو کھانا رکھتا اپنی
پلیٹ میں جب کے المعتصم بالله کے لیے ہیرے جواہرات اور اسے کہتا کہ یہ کھاؤ کیوں کہ تم نے یہی اکھٹا کیا ہے۔ بجائے
اپنے دفاع کو مظبوط کرنے تم اپنی عیاشی اور شوق پورے کرتے رہے۔ ہلاکو خان نے بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجا دی
جو کہ تاریخ کے سیاہ ترین باب میں سے ایک ہے۔ المعتصم بالله کی نااہلی اور عیاشی کی سزا پوری قوم کو اٹھانی پڑی۔
دس لاکھ انسان اپنی جانوں سے ہاتھ گنوا بیٹھے تھے اپنے حکمران کی نااہلی کی وجہ سے۔ ہلاکوخان نے نغداد کی لائیبریری
جو کہ اس وقت دنیا کی سب سے بڑی لائیبریری تھی کو جلا کہ راکھ کر دیا۔ اور کہا کہ یہ ہے ہو علم جس کو پڑھ پڑھ کر تم
لوگوں کا کباڑہ ہوگیا ہے۔
ہلاکوخان نے الکمی کے ساتھ بہت مناسب سلوک کیا۔ اس نے الکمی کو قتل کروا دیا اور کہا کے تم اگر اپنی قوم کے نہ ہو سکے تو تم نے میرا خاک ہونا ہے۔
اور یہ سلوک عنقریب بہت سے لوگوں کا ہونا ہے۔
اسی طرح آج کل کے کچھ لوگ جنہوں نے کبھی تاریخ کی کتابوں کو ہاتھ تک نہیں لگایا۔ فوج کے خلاف ہیں۔
اگر آج فوج نہ ہوتی تو ہمارہ بہت برا حال ہو چکا ہوتا۔ افغانستان اور شام کی مثال آپ کے پاس موجود ہے۔
تحریر
شوال احمد
Last edited by a moderator: