تحریک انصاف نے انتہائی مقبولیت میں پرویز الٰہی کو پارٹی کا صدر بنایا ۔ مارچ 2023 کے بعد اعجاز الحق ، شیخ یعقوب ، شیخ وقاص اکرم، اور کئی دوسرے الیکٹیبلز کو پارٹی میں شامل کیا۔
ایک طرف حقیقی آزادی کا نعرہ اور دوسری طرف الیکٹیبلز کی شمولیت ۔ اگر جمہوریت ، سول حکمرانی اور رول آف لاء کی سیاست کرنی ہے تو پارٹی کی تنظیم اور امیدواران بھی ایسے ہی لانے ہوں گے ۔ موقع پرست ، سیلفی میٹریل اور الیکٹیبلز نظریاتی تحریکیں سرے سے چلا ہی نہیں سکتے۔ چاہے 25 مئی ہو یا نو مئی ، تحریک انصاف کی تنظیمی ڈھانچے اور الیکٹیبلز نے تحریک انصاف کو ناکام کیا ہے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ تحریک انصاف میں پارٹی ورکرز اور
party loyalists نے کم ہی ترقی پائی ہے۔ پارٹی تنظیمی عہدے اور وزارتیں مفاد پرست عناصر نے ہی حاصل کی ہیں۔ پنجاب کی حد تک تو پارٹی صرف الیکٹیبلز کا اکٹھ ہی رہی ہے۔ اگر پنجاب کی بات کی جائے تو پہلا سوال یہ بنتا ہے کہ عثمان بزدار کا پارٹی کے لیے کیا کردار ہے؟ پرویز الٰہی جو کہ صدر ہیں ، انہوں نے چار سال تک تحریک انصاف کو بلیک میل کیا، آخر یوں وزیر اعلیٰ بھی بنے اور پارٹی کے صدر بھی۔ پرویز الٰہی کا صدر بننا یہ ظاہر کرتا ہے کہ تحریک انصاف میں صدر بننے کا معیار کیا ہے؟ پرویز الٰہی پر اپنے مختصر دور حکومت میں کرپشن ،
اقربا پروری کے سنگین الزامات ہیں۔ جو لوگ وزیر اعلیٰ سیکریٹریٹ سے وابسطہ رہے ہیں، انکو معلوم ہے کہ چپڑاسی سے ایڈہاک ڈاکٹرز تک ہر جگہ میرٹ کی بجائے اپنوں کو نوازا گیا۔ عثمان بزدار کی گورننس بھی سب کے سامنے ہی ہے۔
سیاسی جماعتوں کو مسئلہ کہاں پر آتا ہے؟ مسلم لیگ ن نے " ووٹ کو عزت دو " کا نعرہ لگا کر عوام میں جمہوریت اور عوامی حق حاکمیت کے احساسات کے ذریعے مقبولیت حاصل کی۔ جیسے ہی یہ نعرہ کھوکھلا ثابت ہوا، عوامی پزیرائی ختم ہوتی چلی گئی۔ بظاہر یوں محسوس ہوتا ہے کہ سیاسی قائدین صرف عوام کے جذبات سے کھیلتے ہیں اور انکا اصل مدعہ اقتدار تک رسائی ہے۔ اسکی سب سے بڑی مثال پی ڈی ایم میں چودہ مختلف سیاسی جماعتوں کا اکٹھا ہونا ہے۔ پاکستان میں جمہوریت اور عوامی حق حاکمیت کو سنجیدہ چیلنجز کا سامنا ہے۔ تاہم یہ بالکل واضح ہے کہ سیاسی جماعتوں کے علاؤہ کوئی بھی جمہوریت اور عوامی حق حاکمیت کو حاصل نہیں کروا سکتا۔ اس لیے سیاسی جماعتوں کو نظریاتی جدوجھد کے لیے عوامی جذبات کا پہرہ دینا ہو گا۔
عمران خان اور تحریک انصاف نے حقیقی آزادی کی تحریک چلائی ہے۔ حقیقی آزادی کی تحریک سے وہ کیا مراد لیتے ہیں ؟ تحریک انصاف کے مطابق حقیقی آزادی سے مراد قانون کی حاکمیت، بنیادی حقوق کا نفاز، عدلیہ کی آزادی اور میرٹ کریسی ہے۔ اب بنیادی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا تحریک انصاف کے تنظیمی قائدین اور اسمبلیوں کے امیدواران میں نظریے اور عملداری کی مطابقت ہے؟ تحریک انصاف کے سپورٹرز اور ووٹرز تو حقیقی آزادی سے مطابقت رکھتے ہیں مگر کیا پرویز الٰہی، عثمان بزدار، شاہ محمود قریشی، اور دوسرے قائدین و امیدواران یہ مطابقت رکھتے ہیں؟
آخر میں مارچ- اپریل 2022 میں جب وفاقی حکومت کے ساتھ پنجاب کی حکومت بھی تبدیل ہو رہی تھی تو پنجاب کے تحریک انصاف کے صوبائی ممبران کا اجلاس بلایا گیا اور صرف اکہتر اراکین نے شرکت کی۔ یہ ہی 71 اراکین تھے جو کہ پارٹی کے ساتھ رہ گئے تھے۔ بعداز واقعات ، جب سترہ جولائی کو تحریک انصاف پندرہ نشتیں جیت کر اکثریت میں آنے کی پوزیشن میں آئی تو پرویز الٰہی نے اچھی خاصی مالی سرمایہ کاری کر کے 186 امیدواران پورے کیے۔ تحریک انصاف کے انہی صوبائی امیدواران کو بعد میں پرویز الٰہی نے سیاسی طور پر بھی نوازا تھا۔
اگر تحریک انصاف کے پنجاب کے سابقہ 186 اور موجودہ 297 ٹکٹ ہولڈرز کا تنقیدی جائزہ لیا جائے تو یہ بات واضح ہے کہ ان کی اکثریت حقیقی آزادی کے مفہوم سے ہی نابلد ہے۔ اس لیے عمران خان اور تحریک انصاف کا سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ کیا وہ ان امیدواران کو ٹکٹ دے پائیں گے جو کہ حقیقی آزادی کے نظریے سے مطابقت رکھتے ہیں ؟
آخر میں پاکستان مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور پی ڈی ایم کی سیاسی جماعتوں میں یہ صلاحیت ہی نہیں ہے کہ وہ کوئی بھی نظریاتی تحریک چلا سکیں۔ تحریک انصاف کے سپورٹرز وہ واحد سپورٹرز ہیں جو کہ تحریک انصاف کو نظریاتی سیاسی جماعت کے طور پر ڈھالنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ مکمل طور پاکستان میں نظریاتی سیاست کرنا مشکل ہے مگر سیاسی جماعت کے مرکز Core کو یقیناً نظریاتی بنایا جا سکتا ہے۔ الیکشنز میں تحریک انصاف کی جیت کے امکانات روشن ہیں، تا ہم بنیادی سوال یہ ہے کہ حقیقی آزادی پر ملنے والی عوامی سپورٹ کو کیا تحریک انصاف نظریاتی کارکنان کے ذریعے مکمل کر پائے گی؟
ایک طرف حقیقی آزادی کا نعرہ اور دوسری طرف الیکٹیبلز کی شمولیت ۔ اگر جمہوریت ، سول حکمرانی اور رول آف لاء کی سیاست کرنی ہے تو پارٹی کی تنظیم اور امیدواران بھی ایسے ہی لانے ہوں گے ۔ موقع پرست ، سیلفی میٹریل اور الیکٹیبلز نظریاتی تحریکیں سرے سے چلا ہی نہیں سکتے۔ چاہے 25 مئی ہو یا نو مئی ، تحریک انصاف کی تنظیمی ڈھانچے اور الیکٹیبلز نے تحریک انصاف کو ناکام کیا ہے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ تحریک انصاف میں پارٹی ورکرز اور
party loyalists نے کم ہی ترقی پائی ہے۔ پارٹی تنظیمی عہدے اور وزارتیں مفاد پرست عناصر نے ہی حاصل کی ہیں۔ پنجاب کی حد تک تو پارٹی صرف الیکٹیبلز کا اکٹھ ہی رہی ہے۔ اگر پنجاب کی بات کی جائے تو پہلا سوال یہ بنتا ہے کہ عثمان بزدار کا پارٹی کے لیے کیا کردار ہے؟ پرویز الٰہی جو کہ صدر ہیں ، انہوں نے چار سال تک تحریک انصاف کو بلیک میل کیا، آخر یوں وزیر اعلیٰ بھی بنے اور پارٹی کے صدر بھی۔ پرویز الٰہی کا صدر بننا یہ ظاہر کرتا ہے کہ تحریک انصاف میں صدر بننے کا معیار کیا ہے؟ پرویز الٰہی پر اپنے مختصر دور حکومت میں کرپشن ،
اقربا پروری کے سنگین الزامات ہیں۔ جو لوگ وزیر اعلیٰ سیکریٹریٹ سے وابسطہ رہے ہیں، انکو معلوم ہے کہ چپڑاسی سے ایڈہاک ڈاکٹرز تک ہر جگہ میرٹ کی بجائے اپنوں کو نوازا گیا۔ عثمان بزدار کی گورننس بھی سب کے سامنے ہی ہے۔
سیاسی جماعتوں کو مسئلہ کہاں پر آتا ہے؟ مسلم لیگ ن نے " ووٹ کو عزت دو " کا نعرہ لگا کر عوام میں جمہوریت اور عوامی حق حاکمیت کے احساسات کے ذریعے مقبولیت حاصل کی۔ جیسے ہی یہ نعرہ کھوکھلا ثابت ہوا، عوامی پزیرائی ختم ہوتی چلی گئی۔ بظاہر یوں محسوس ہوتا ہے کہ سیاسی قائدین صرف عوام کے جذبات سے کھیلتے ہیں اور انکا اصل مدعہ اقتدار تک رسائی ہے۔ اسکی سب سے بڑی مثال پی ڈی ایم میں چودہ مختلف سیاسی جماعتوں کا اکٹھا ہونا ہے۔ پاکستان میں جمہوریت اور عوامی حق حاکمیت کو سنجیدہ چیلنجز کا سامنا ہے۔ تاہم یہ بالکل واضح ہے کہ سیاسی جماعتوں کے علاؤہ کوئی بھی جمہوریت اور عوامی حق حاکمیت کو حاصل نہیں کروا سکتا۔ اس لیے سیاسی جماعتوں کو نظریاتی جدوجھد کے لیے عوامی جذبات کا پہرہ دینا ہو گا۔
عمران خان اور تحریک انصاف نے حقیقی آزادی کی تحریک چلائی ہے۔ حقیقی آزادی کی تحریک سے وہ کیا مراد لیتے ہیں ؟ تحریک انصاف کے مطابق حقیقی آزادی سے مراد قانون کی حاکمیت، بنیادی حقوق کا نفاز، عدلیہ کی آزادی اور میرٹ کریسی ہے۔ اب بنیادی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا تحریک انصاف کے تنظیمی قائدین اور اسمبلیوں کے امیدواران میں نظریے اور عملداری کی مطابقت ہے؟ تحریک انصاف کے سپورٹرز اور ووٹرز تو حقیقی آزادی سے مطابقت رکھتے ہیں مگر کیا پرویز الٰہی، عثمان بزدار، شاہ محمود قریشی، اور دوسرے قائدین و امیدواران یہ مطابقت رکھتے ہیں؟
آخر میں مارچ- اپریل 2022 میں جب وفاقی حکومت کے ساتھ پنجاب کی حکومت بھی تبدیل ہو رہی تھی تو پنجاب کے تحریک انصاف کے صوبائی ممبران کا اجلاس بلایا گیا اور صرف اکہتر اراکین نے شرکت کی۔ یہ ہی 71 اراکین تھے جو کہ پارٹی کے ساتھ رہ گئے تھے۔ بعداز واقعات ، جب سترہ جولائی کو تحریک انصاف پندرہ نشتیں جیت کر اکثریت میں آنے کی پوزیشن میں آئی تو پرویز الٰہی نے اچھی خاصی مالی سرمایہ کاری کر کے 186 امیدواران پورے کیے۔ تحریک انصاف کے انہی صوبائی امیدواران کو بعد میں پرویز الٰہی نے سیاسی طور پر بھی نوازا تھا۔
اگر تحریک انصاف کے پنجاب کے سابقہ 186 اور موجودہ 297 ٹکٹ ہولڈرز کا تنقیدی جائزہ لیا جائے تو یہ بات واضح ہے کہ ان کی اکثریت حقیقی آزادی کے مفہوم سے ہی نابلد ہے۔ اس لیے عمران خان اور تحریک انصاف کا سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ کیا وہ ان امیدواران کو ٹکٹ دے پائیں گے جو کہ حقیقی آزادی کے نظریے سے مطابقت رکھتے ہیں ؟
آخر میں پاکستان مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور پی ڈی ایم کی سیاسی جماعتوں میں یہ صلاحیت ہی نہیں ہے کہ وہ کوئی بھی نظریاتی تحریک چلا سکیں۔ تحریک انصاف کے سپورٹرز وہ واحد سپورٹرز ہیں جو کہ تحریک انصاف کو نظریاتی سیاسی جماعت کے طور پر ڈھالنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ مکمل طور پاکستان میں نظریاتی سیاست کرنا مشکل ہے مگر سیاسی جماعت کے مرکز Core کو یقیناً نظریاتی بنایا جا سکتا ہے۔ الیکشنز میں تحریک انصاف کی جیت کے امکانات روشن ہیں، تا ہم بنیادی سوال یہ ہے کہ حقیقی آزادی پر ملنے والی عوامی سپورٹ کو کیا تحریک انصاف نظریاتی کارکنان کے ذریعے مکمل کر پائے گی؟