
ترک حکام نے جمعرات کے روز صدر رجب طیب اردوان کے سب سے بڑے سیاسی حریف استنبول کے میئر اکرام امام اوغلو کے وکیل محمد پہلوان کو حراست میں لے لیا۔ یہ گرفتاری بدعنوانی کے الزامات کے تحت امام اوغلو کے خلاف مقدمے کی سماعت کے دوران کی گئی، جس کے نتیجے میں ترکی میں بڑے پیمانے پر حکومت مخالف مظاہرے ہوئے اور بعد میں گرفتاریاں کی گئیں۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق، اکرام امام اوغلو کو اتوار کے روز بدعنوانی کے الزامات کے تحت مقدمے کی سماعت تک جیل بھیج دیا گیا تھا، جس کے بعد ترکی میں سب سے بڑے حکومت مخالف مظاہروں کا آغاز ہوا۔ حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والے رکن پارلیمنٹ توران تسکین اوزر نے ’ایکس‘ پر ایک پوسٹ میں بتایا کہ امام اوغلو کا دفاع کرنے والے وکیل محمد پہلوان کو من گھڑت وجوہات کی بنا پر حراست میں لیا گیا ہے۔
امریکی سیکریٹری خارجہ نے کہا ہے کہ واشنگٹن نے مظاہرین کی گرفتاریوں اور کریک ڈاؤن کے حوالے سے ترک حکام کو اپنی تشویش سے آگاہ کیا ہے۔ مارکو روبیو نے اپنے بیان میں کہا کہ "ہم کسی بھی ایسے ملک کی حکمرانی میں اس طرح کا عدم استحکام دیکھنا پسند نہیں کرتے جو اتنا قریبی اتحادی ہو۔"
نجی نشریاتی ادارے ’ہیبرترک‘ کے مطابق، وکیل کو ’مجرمانہ فعل سے حاصل ہونے والے اثاثوں کی منی لانڈرنگ‘ کے الزام میں حراست میں لیا گیا ہے۔ اس معاملے پر اکرام امام اوغلو نے اپنے وکیل کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا ہے اور اپنے ’ایکس‘ اکاؤنٹ پر کہا کہ "جمہوریت پر شب خون مارنا کافی نہیں تھا، حکومت کو اس بغاوت کے متاثرین کی جانب سے اپنا دفاع کرنا بھی برداشت نہیں ہے۔"
اکرام امام اوغلو اور ان کی سیاسی جماعت سی ایچ پی، دیگر حزب اختلاف کی جماعتوں، انسانی حقوق کے گروپوں اور مغربی طاقتوں کا کہنا ہے کہ یہ مقدمہ اردوان کے لیے انتخابی خطرے کو ختم کرنے کی ایک سیاسی کوشش ہے۔ تاہم حکومت عدلیہ پر کسی بھی اثر و رسوخ سے انکار کرتی ہے اور کہتی ہے کہ عدالتیں آزاد ہیں۔
دوسری جانب، ترکیہ کی جرنلسٹس یونین نے بتایا کہ استنبول میں حکومت مخالف مظاہروں کی کوریج کرنے والے دو صحافیوں کو جمعے کی علی الصبح حراست میں لے لیا گیا ہے۔ یہ گرفتاری اس وقت سامنے آئی ہے جب ایک روز قبل ترکی کی عدالت نے فرانس پریس کے فوٹو جرنلسٹ یاسین اکگل سمیت سات دیگر صحافیوں کو رہا کیا تھا، جنہیں گزشتہ ہفتے ہونے والے عوامی مظاہروں کی کوریج کے دوران ’غیر قانونی مارچ میں شرکت‘ کرنے پر جیل بھیج دیا گیا تھا۔