https://twitter.com/x/status/1904133265226944850
سرفراز مسوری بگٹی: ایک "مسنگ پرسن" جو اب وزیراعلی بلوچستان ہے۔مسنگ پرسنز پر سرکاری کہانیوں کے برعکس موجودہ وزیراعلی بلوچستان سرفراز بگٹی کے مسنگ پرسن بننے کی داستان بیک وقت تلخ، دلچسپ اور عبرت ناک بھی ہے۔ اگست 2006 میں سرفراز بگٹی اور انکے والد غلام قادر مسوری بگٹی کو ایک میجر صاحب یہ کہہ کر گھر سے لے گئے کہ ایک اہم شخصیت سے آپ کی ملاقات ہے۔ آپ اسے اپنے اپنے خیالات کے مطابق مہمان نوازی، اغوا، نظر بندی، جبری گمشدگی کہہ سکتے ہیں۔
سرفراز بگٹی کے بھائی جان محمد دہائیاں دیتے رہے کہ میرے بھائی اور والد کئی ہفتوں سے لاپتہ ہیں، اگر ان کا کوئی قصور ہے یا ان پر کوئی الزام ہے تو انہیں عدالت میں پیش کیا جائے۔ لیکن انہیں عدالت میں پیش نہیں کیا گیا۔
کچھ عرصہ بعد باپ بیٹا واپس آ گئے۔ کہاں سے واپس آئے اور کس نے واپس کیا، یہ سوالات پوچھنا غداری کے زمرے میں آتا ہے۔ جان بخشی تو ہو گئی لیکن اس واقعے کے بعد سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ نے سرفراز بگٹی کے کزن طارق مسوری کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور انکی سرپرستی شروع کر دی۔ یوں سرفراز بگٹی راندہ درگاہ ہو چکے تھے۔
اب آتے ہیں الیکشن 2008 کی جانب۔۔۔ سرفراز بگٹی نے اپنے کزن کے خلاف الیکشن لڑنے کا ارادہ کیا تو کاغذات نامزدگی جمع کروانے کے لیے جاتے ہوئے ایک بار پھر باوردی سرکاری اہلکاروں نے انہیں روک کر تشدد کا نشانہ بنایا، سرفراز بگٹی ہڈی فریکچر کروا کر ہسپتال جا پہنچے۔ (تحریک انصاف والے پنجاب میں آج کل کاغذات نامزدگی چھیننے کی شکایت کرتے ہیں، بلوچستان میں یہ پرانی کہانی ہے)۔ یہاں تک کہ مخدوم امین فہیم نے کہا کہ غلام قادر مسوری کے بیٹے سرفراز اور جان محمد ہماری ٹکٹ پر قومی و صوبائی الیکشن لڑنا چاہتے ہیں لیکن انکو انٹیلی جنس والوں نے گرفتار کر لیا ہے۔ راجہ پرویز اشرف نے الیکشن کمیشن میں تحریری شکایت درج کروائی کہ ہمارے امیدوار کو الیکشن کمیشن کے مقامی دفتر کے باہر سے اغوا کر لیا گیا ہے۔ یوں طارق بگٹی کے سامنے سرفراز بگٹی کو صوبائی سیٹ پر الیکشن ہی نہیں لڑنے دیا گیا۔
پھر حالات نے پلٹا کھایا، ہمیشہ کی طرح کچھ پوسٹنگ ٹرانسفرز کے بعد "پالیسی" بدل گئی اور 2006 کا وہی "مسنگ پرسن"، وہی "غدار" جسے بزور طاقت 2008 کا الیکشن نہیں لڑنے دیا گیا، وہ 2013 میں "محب وطن" بن کر اسی صوبے کا وزیر داخلہ تھا۔
سرفراز مسوری بگٹی: ایک "مسنگ پرسن" جو اب وزیراعلی بلوچستان ہے۔مسنگ پرسنز پر سرکاری کہانیوں کے برعکس موجودہ وزیراعلی بلوچستان سرفراز بگٹی کے مسنگ پرسن بننے کی داستان بیک وقت تلخ، دلچسپ اور عبرت ناک بھی ہے۔ اگست 2006 میں سرفراز بگٹی اور انکے والد غلام قادر مسوری بگٹی کو ایک میجر صاحب یہ کہہ کر گھر سے لے گئے کہ ایک اہم شخصیت سے آپ کی ملاقات ہے۔ آپ اسے اپنے اپنے خیالات کے مطابق مہمان نوازی، اغوا، نظر بندی، جبری گمشدگی کہہ سکتے ہیں۔
سرفراز بگٹی کے بھائی جان محمد دہائیاں دیتے رہے کہ میرے بھائی اور والد کئی ہفتوں سے لاپتہ ہیں، اگر ان کا کوئی قصور ہے یا ان پر کوئی الزام ہے تو انہیں عدالت میں پیش کیا جائے۔ لیکن انہیں عدالت میں پیش نہیں کیا گیا۔
کچھ عرصہ بعد باپ بیٹا واپس آ گئے۔ کہاں سے واپس آئے اور کس نے واپس کیا، یہ سوالات پوچھنا غداری کے زمرے میں آتا ہے۔ جان بخشی تو ہو گئی لیکن اس واقعے کے بعد سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ نے سرفراز بگٹی کے کزن طارق مسوری کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور انکی سرپرستی شروع کر دی۔ یوں سرفراز بگٹی راندہ درگاہ ہو چکے تھے۔
اب آتے ہیں الیکشن 2008 کی جانب۔۔۔ سرفراز بگٹی نے اپنے کزن کے خلاف الیکشن لڑنے کا ارادہ کیا تو کاغذات نامزدگی جمع کروانے کے لیے جاتے ہوئے ایک بار پھر باوردی سرکاری اہلکاروں نے انہیں روک کر تشدد کا نشانہ بنایا، سرفراز بگٹی ہڈی فریکچر کروا کر ہسپتال جا پہنچے۔ (تحریک انصاف والے پنجاب میں آج کل کاغذات نامزدگی چھیننے کی شکایت کرتے ہیں، بلوچستان میں یہ پرانی کہانی ہے)۔ یہاں تک کہ مخدوم امین فہیم نے کہا کہ غلام قادر مسوری کے بیٹے سرفراز اور جان محمد ہماری ٹکٹ پر قومی و صوبائی الیکشن لڑنا چاہتے ہیں لیکن انکو انٹیلی جنس والوں نے گرفتار کر لیا ہے۔ راجہ پرویز اشرف نے الیکشن کمیشن میں تحریری شکایت درج کروائی کہ ہمارے امیدوار کو الیکشن کمیشن کے مقامی دفتر کے باہر سے اغوا کر لیا گیا ہے۔ یوں طارق بگٹی کے سامنے سرفراز بگٹی کو صوبائی سیٹ پر الیکشن ہی نہیں لڑنے دیا گیا۔
پھر حالات نے پلٹا کھایا، ہمیشہ کی طرح کچھ پوسٹنگ ٹرانسفرز کے بعد "پالیسی" بدل گئی اور 2006 کا وہی "مسنگ پرسن"، وہی "غدار" جسے بزور طاقت 2008 کا الیکشن نہیں لڑنے دیا گیا، وہ 2013 میں "محب وطن" بن کر اسی صوبے کا وزیر داخلہ تھا۔