حکومت کیجانب سے اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کے خط میں عائد الزامات کی نفی اور انکوائری کمیشن کی تشکیل کے معاملے پر عوامی ردعمل سامنے آگیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق حکومت نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججز کی جانب سے لکھے گئے خط میں عائد الزامات کی نفی کرتے ہوئے تحقیقات کیلئے ایک خصوصی انکوائری کمیشن تشکیل دیدیا ہےجس اس معاملے کی چھان بین کا ٹاسک دیا گیا ہے۔
حکومت کے اس فیصلے پر صحافتی وعوامی حلقوں کیجانب سے ردعمل آنا شروع ہوگیا ہے، ہیومن رائٹس کونسل پاکستان نے بھی حکومتی ردعمل کو افسوسناک قرار دیتے ہوئے تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ انکوائری شروع ہونے سے پہلے ہی ایسا از خود موقف نہیں دینا چاہیے تھا،یہ تحقیقات پر اثر انداز ہونے کے مترادف ہے، اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کے خدشات پر میرٹ پر صاف و شفاف تحقیقات ہونی چاہیے۔
سینئر صحافی و تجزیہ کار عمران ریاض نے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بغیر تحقیقات الزامات کو مسترد کرکے کابینہ نے اپنی نیت دکھادی ہے اور ایک متنازعہ کمیشن تشکیل دے کر بدنیتی کا ثبوت بھی فراہم کردیا ہے،جو راستہ قاضی فائز عیسیٰ نے نکالا وہ حکومتی اقدامات سے غلط ثابت ہوگیا۔
سینئر صحافی ثاقب بشیر نے کہا کہ پھر حکومت نے کمیشن کس چیز کا بنا یا ہے؟
سینئر صحافی خالد جمیل نے کمیشن کے سربراہ تصدق حسین جیلانی پر سوالیہ نشان اٹھاتے ہوئے کہا کہ کمیشن کے قیام سے قبل ہی کابینہ کا الزامات کی نفی کرنا اور خط کو نامناسب قرار دینا حکومتی بدنیتی اور چور کی داڑھی میں تنکے کی عکاسی کرتا ہے۔
محمد عمیر نے کابینہ اجلاس کا اعلامیہ شیئرکرتے ہوئے کہا کہ کمیشن بنانے والوں نے تحقیقات سے قبل ہی ایجنسیوں پر عائد الزامات کو نامناسب قرار دیدیا۔
صحافی اکبر باجوہ نے کہا کہ شروعات ہی ایسے کی جارہی ہے کہ الزامات جھوٹ بھی ہوسکتے ہیں، اگر کسی نے کچھ ایسا کر بھی لیا تو کیا ہوا آئین یہ اختیار دیتا ہے۔
صحافی احمد ابو بکر نے کہا کہ کابینہ نے الزامات کی نفی کرتے ہوئےانہیں نامناسب قرار دیا، کمیشن کے ٹی او آرز بنائے، اس کابینہ نے اپنا مائنڈ ایکسپوز کردیا ہے، تحقیقات کی ساکھ اب مزید مذاق بن جائے گی۔
صحافی شاکر محمود اعوان نے کہا کہ بادی النظر میں یہ کمیشن کا فیصلہ ہے کہ ججز کے الزامات نامناسب ہیں جنہیں مسترد کیا جاتا ہے۔
سجاد بلوچ نے کہا کہ صرف نامناسب قرار دینا کافی نہیں ہے، ججز کے الزامات کو ماورائے آئین، اختیارات سے تجاوز اور مس کنڈکٹ قرار دینا چاہیے ۔ وفاقی کابینہ فاشسٹ اپروچ رکھنے والے ججز کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بننا چاہیے۔ یہ ہوتے کون ہیں اپنی مرضی کے فیصلے کرنے والے ۔ فیصلے تو آئین و قانون کے مطابق ہوتے ہیں۔ پاکستان میں آئین و قانون کون طے کرتا ہے ۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔
سراحمد کھوکھر نے کہا کہ حکومت نے نفی ہی کرنی تھی کیونکہ ججز نے حکومت و ان کے ماتحت اداروں پر الزام عائد کیا ہے۔
میاں وحید نے کہا کہ وفاقی کابنہ0 نے بغر کسی انکوائری کے اپنے اعلامےن مںا چھ ججوں کے ایگزیوٹک کی مداخلت سے متعلق خط کو نہ صرف مسترد کاد بلکہ ان کے الزامات کو بھی نامناسب قرار دیا۔