جرم کسی نے بھی کیا ہو سزا ضروری ہے، ملٹری کورٹس کیس میں مندوخیل کی سماعت

screenshot_1741092159824.png


سپریم کورٹ میں ملٹری کورٹس میں سویلینز کے ٹرائل کے فیصلے کے خلاف دائر انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت جاری ہے۔ جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ نے اس معاملے کی سماعت کی، جس دوران جسٹس جمال مندوخیل نے اہم ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ "جرم کسی نے بھی کیا ہو، سزا تو ہونی چاہیے۔ ٹرائل یہاں ہو یا وہاں ہو، کیا فرق پڑتا ہے؟"

سماعت کے دوران جسٹس محمد علی مظہر نے سول سوسائٹی کے وکیل فیصل صدیقی سے سوال کیا کہ ملٹری کورٹس سے کتنے لوگ رہا ہوئے ہیں؟ فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ کل 105 ملزمان تھے، جن میں سے 20 ملزمان رہا ہوئے ہیں۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے مزید بتایا کہ 20 کے بعد 19 مزید ملزمان رہا ہوئے ہیں، اور اس وقت جیلوں میں 66 ملزمان موجود ہیں۔

وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ امریکا میں یہ رواج ہے کہ دلائل کے اختتام پر فریقین کو پروپوز ججمنٹ کا حق دیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کورٹ مارشل کا بھی متبادل موجود ہے، لیکن ٹرائل کے طریقہ کار میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ ایک ٹرائل آزاد ہوتا ہے، جب کہ دوسرا ملٹری کورٹس میں ہوتا ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ جہاں دفاع پاکستان کو خطرہ ہو، وہاں سویلینز کا ملٹری کورٹس میں ٹرائل ہو سکتا ہے۔ تاہم، 9 مئی کے واقعات میں زیادہ تر کیسز توڑ پھوڑ کے ہیں۔

درخواست گزار بشریٰ قمر کے وکیل عابد زبیری نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ اٹارنی جنرل نے اپیل کا حق دینے کی قانون سازی کا وعدہ کیا تھا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا اٹارنی جنرل ایسی انڈر ٹیکنگ دے سکتے ہیں جو قانون میں موجود نہ ہو؟ عابد زبیری نے جواب دیا کہ اٹارنی جنرل نے حکومت کی جانب سے ہی عدالت میں مؤقف اپنایا تھا۔

سماعت کے آخر میں عدالت نے مزید دلائل سننے کے لیے سماعت کو کل تک ملتوی کر دیا۔

یہ کیس ملٹری کورٹس میں سویلینز کے ٹرائل کے حوالے سے اہم قانونی سوالات اٹھاتا ہے۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ نہ صرف 9 مئی کے واقعات میں ملوث ملزمان کے مستقبل کا تعین کرے گا، بلکہ ملک میں عدالتی نظام کے دائرہ کار اور ملٹری کورٹس کے اختیارات پر بھی اثرانداز ہوگا۔

سپریم کورٹ کی جانب سے اس معاملے پر تفصیلی سماعت سے ظاہر ہوتا ہے کہ عدالت اس معاملے کو انتہائی سنجیدگی سے لے رہی ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل کے ریمارکس نے اس بحث کو مزید تقویت بخشی ہے کہ جرم کی سزا ضروری ہے، لیکن ٹرائل کا طریقہ کار بھی منصفانہ اور شفاف ہونا چاہیے۔

اب عدالت کے فیصلے کا انتظار ہے، جو ملک کے عدالتی نظام اور ملٹری کورٹس کے کردار کے حوالے سے ایک اہم سنگ میل ثابت ہوگا۔
 

Sarkash

Chief Minister (5k+ posts)

پھر آئین کو توڑنے والوں کو سزائے موت کیوں نہیں دی آج تک؟ ان کے سامنے لیٹ کیوں گئے؟
 

Back
Top