
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ فوجی عدالتوں کے خلاف بننے والے 9 رکنی بنچ کا حصہ ہیں جو اس سے پہلے بھی فوجی عدالتوں سے متعلق ایک مقدمےکا حصہ رہ چکےہیں۔ دلچسپ امریہ کہ سابق چیف جسٹس جوادایس خواجہ جو ماضی میں اس بنچ کا حصہ رہ چکے ہیں وہ درخواست گزار ہیں۔
سانحہ آرمی پبلک سکول کے بعد فوجی عدالتوں سے متعلق سپریم کورٹ کے 17رکنی بنچ نے اس وقت کی حکومت کے حق میں فیصلہ سنایا تھا لیکن اس فیصلے سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے اختلاف کیا تھا۔
اس وقت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اختلافی نوٹ میں لکھا کہ فوج انتظامیہ کا حصہ ہے اور وہ عدلیہ کے اختیارات استعمال کرتے ہوئے سویلین افراد کا ٹرائل نہیں کرسکتی ۔
https://twitter.com/x/status/1671713815036141572
انہوں نے اپنے فیصلے میں مزید لکھا تھا کہ پاکستان آرمی ترمیمی اٹک آئین کے چیپٹر ون اور ٹو میں دیئے گئے بنیادی حقوق کیخلاف ہے مذکورہ ایکٹ کے تحت کی گئی تمام سزائیں اورٹرائل کالعدم قرار دیا جاتا ہے اور ان مقدمات کو دہشتگردی عدالتوں میں چلایا جائے تمام فوجی عدالتوں کے مقدمات دہشتگردی عدالتوں میں منتقل کئے جائیں۔
جسٹس جواد ایس خواجہ کا کہنا تھا کہ عوامی نمائندوں کو کسی طور پر یہ اختیار نہیں دیا جاسکتا کہ وہ جس طرح چاہیں آئین میں ترمیم کریں چاہے وہ آئین کے بنیادی ڈھانچے کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔
جسٹس خواجہ نے اپنے اختلافی نوٹ میں یہ بھی لکھا ہے کہ آئین تمام ریاستی اداروں پر فوقیت رکھتا ہے اور آئین کی تخلیق کردہ پارلیمنٹ آئین سے بالاتر نہیں ہے اور اس کے اختیارات لامحدود نہیں ہیں۔
- Featured Thumbs
- https://www.siasat.pk/data/files/s3/qazifhahas.jpg