
صحافی و اینکر پرسن جاوید چودھری نے گزشتہ روز اپنے کالم میں مختلف قسم کے دعوے کیے اور لکھا کہ عمران خان کی سابق آرمی چیف جنرل ریٹائرڈ قمر جاوید باجوہ اور صدر مملکت علوی کی ملاقاتوں کا احوال بیان کیا۔ جس میں بتایا کہ یہ ملاقاتیں بے نتیجہ رہیں اور یہ بھی دعویٰ کیا کہ جنرل باجوہ نے بتایا کہ وہ شوکت ترین کی تقرری سے خوش نہ تھے۔
جاوید چودھری کے کالم پر ردعمل دیتے ہوئے شوکت ترین نے کہا ہے کہ اگر وہ تمام باتیں جو کالم نگار نے لکھی ہیں اگر واقعی حقیقت پر مبنی ہیں تو وہ اس پر یہ کہتے ہیں کہ 31مارچ 2022کو میں نے ریکوڈک ڈیل فائنل کی تو جنرل صاحب نے مجھے ہیرو قرار دیا۔ انہوں نے جنرل فیض کی مدد سے 8ارب کے کیس ختم کرنے کے دعوے کو بھی افسانہ اور مضحکہ خیز قرار دیا۔
شوکت ترین نے بطور وزیر خزانہ معیشت کو ضرورت سے زیادہ گرم کرنے کے تاثر کو بھی یکسر غلط قرار دیدیا اور برآمدات کے ذریعے ٹیکس جمع کرنے کے تاثر کو بھی ناسمجھی اور حقائق سے عدم واقفیت کا نتیجہ قرار دیدیا۔ ان کا کہنا ہے مجھے یقین نہیں کہ جنرل(ر) باجوہ نے ان خیالات کا اظہار کیا مگر پھر بھی ریکارڈ کی درستگی کیلئے کچھ حقائق عرض کرنا چاہتا ہوں۔
سابق وزیر خزانہ نے مزید کہا کہ کسی مالی کرپشن کے الزام کے بغیر چار رینٹل پاورز کا معاملہ مجھ پر تھونپا گیا، میں نے رینٹل کمپنیوں کو اضافی سات فیصد ایڈوانس کی فراہمی کی منظوری دی، میں پیپلز پارٹی کی رینٹل پاور پالیسی پر روز اول سے خلاف تھا، میرے اصرار پر ایشین ڈویلپمینٹ بینک کی جانب سے ایک آڈٹ کیا گیا اور منصوبہ روکا گیا۔
شوکت ترین نے مزید بتایا کہ مجھے کریڈٹ دینے کی بجائے اس وقت کے چیف جسٹس صاحب نے مجھے بھی تحقیقات کا حصہ بنانے کے احکامات دیئے، حقیقت میں، میں نے شرائط میں تبدیلی کے ذریعے حکومت پاکستان کے 292 ارب روپے کے بچت کی، 2019میں وزیراعظم عمران خان نے مجھے ذمے داری سونپنے کا کہا تو میں نے معذرت کی۔
انہوں نے کہا میری معذرت کا سبب یہ تھا کہ میرے خلاف مقدمے تھے جن میں پچھلے سات سال سے کوئی کارروائی نہ ہوئی، میری واحد کوشش میرٹ پر کارروائی کو تیز کرنا تھا، ان مقدمات پر کارروائی آگے بڑھی تو میری معصومیت ہی ثابت نا ہوئی بلکہ دوسروں کو بھی ریلیف ملا۔
شوکت ترین کا یہ بھی کہنا ہے کہ جب میں نے معیشت سنبھالی تو یہ کرونا کے اثرات سے نکل رہی تھی، معاشی نمو اور نوکریوں کی اشد ضرورت تھی، ہمارے اقدامات کے نتیجے میں عالمی کموڈیٹی سپر سائیکل کے باوجود معیشت نے ہمہ جہت ترقی کی، برآمدات، ٹیکسز ، ترسیلات اور فراہمی روزگار سمیت تمام شعبہ جات میں ہمیں ترقی حاصل ہوئی۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ تحریک عدم اعتماد سے پہلے ہمارے زرِ مبادلہ کے ذخائر 16.4ارب، افراط ِزر 12.7فیصد تھا۔ پی ڈی ایم کی حکومت نے اسے 17سال کی بہترین کارکردگی قرار دیا اور اسے اقتصادی سروے کی صورت میں چھاپا، عالمی کموڈیٹی سپرسائیکل کے باعث ہماری برآمدات میں اضافہ ہوا، فروری 2022تک ہم کرنٹ اکائونٹ خسارے کو ماہانہ 700ملین ڈالر تک کم کر چکے تھے۔
شوکت ترین نے مزید حقائق بتاتے ہوئے کہا ہماری کاوشوں کے باعث افراطِ زر 12.7فیصد تک محدود ہوچکا تھا، ہمیں علم تھا کہ کموڈیٹی سپرسائیکل کے اثرات آہستہ آہستہ ختم ہو جاینگے مگر ہماری ترقی کا سلسلہ برقرار رہے گا، ہمیں یہ بھی علم تھا کہ وزیراعظم عمران خان کی روس سے سستے تیل، گیس اور گندم کے حصول سے ہمارا بوجھ کافی کم ہوگا۔
اپنی تعیناتی کی مخالفت کی جنرل باجوہ سے متعلق خبر پر ان کا کہنا ہے کہ جنرل صاحب کو اعتراض تھا کہ میں ایک چھوٹا بینک چلاتا ہوں چنانچے معیشت کا پھٹہ بیٹھا دونگا، جنرل صاحب کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ اپنے 46سالہ کیریئیر میں نے کئی ممالک میں سٹی بینک کے معاملات کی نگرانی کی۔
انہوں نے کہا جنرل صاحب کو بتائے دیتا ہوں کہ میں نے تین برس کی قلیل مدت میں دیوالیہ پن کے شکار حبیب بینک کو اپنے پاؤں پر کھڑا کیا، جنرل صاحب ہی کہ لئے عرض ہے کہ میں نے چھے برس کی مدت میں یونین بینک کی حالت کو بھی مکمل طور پر بدلا، یونین بینک کی سٹینڈرڈ چارٹرڈ بینک کو فروخت اور سرمایہ کاروں کو 1800فیصد منافع کی فراہمی بھی میری کاوشوں سے ممکن ہوئی۔
انہوں نے یہ بھی کہا جنرل صاحب شاید بھول چکے کہ 2008میں، میں نے ڈوبتی ہوئی معیشت کو مستحکم کیا اور اصول کی بنیاد پر 17ماہ میں ذمہ داری سے الگ ہوا، سلک بینک میں معاملات مسقط بینک ، آئی ایف سی اور نومیوراکی جانب سے اضافی سرمائے کی فراہمی کے وعدے سے پیچھے ہٹ جانے کے باعث پیچدہ ہوئے تھے۔
- Featured Thumbs
- https://www.siasat.pk/data/files/s3/1tarnreply%20to%20bajawa.jpg