battery low
Chief Minister (5k+ posts)
جوڈیشل کمیشن اجلاس سے پہلے جسٹس منصور علی شاہ کا ایک اور خط، آئینی بنچ کیلئے ججز کا معیار ان کے آئینی تشریح والے فیصلوں کو بنانے کا مطالبہ کردیا، ججز تعیناتی میں انٹیلجنس ایجنسیوں سے رپورٹ لینے کی مخالفت بھی کر دی، 26ویں ترمیم پر فل کورٹ کا مطالبہ بھی دہرا دیا
https://twitter.com/x/status/1870327373297778871 جوڈیشل کمیشن کے اجلاس سے قبل جسٹس منصور علی شاہ نے ایک اور خط لکھا۔
سیکرٹری جوڈیشل کمیشن کو لکھے گئے خط میں انہوں نے کہا کہ آئینی بنچ کے لیے ججز کی تعیناتی کے لیے رولز کا ہونا ضروری ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ آئینی بنچ میں کتنے ججز ہوں گے، اس کا مکینزم بھی تیار کرنا چاہیے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ آئینی بنچ میں ججز کی شمولیت کا معیار طے ہونا چاہیے، اور ایک ممکنہ معیار یہ ہو سکتا ہے کہ کس جج نے آئینی تشریح کے کتنے فیصلے لکھے ہوں۔
انہوں نے ایک اور خط میں یہ نشاندہی کی کہ جوڈیشل کمیشن بغیر کسی واضح معیار کے سپریم کورٹ اور سندھ ہائیکورٹ میں آئینی بنچ تشکیل دے چکا ہے۔ علاوہ ازیں، انہوں نے ججز کی تعیناتی کے رولز پر اپنی مجموعی رائے بھی پیش کی ہے۔
خط میں جسٹس منصور علی شاہ نے انٹیلجنس ایجنسی سے رپورٹ لینے کی مخالفت کی، یہ کہتے ہوئے کہ اگر انٹیلجنس ایجنسی کو ایسا کردار دیا گیا تو اس کا غلط استعمال ہو سکتا ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ جوڈیشل کمیشن میں پہلے ہی اکثریت ایگزیکٹو کی ہے۔
مزید برآں، انہوں نے چھبیسویں ترمیم کے حوالے سے اپنی پوزیشن واضح کرتے ہوئے کہا کہ اس ترمیم کا جائزہ فل کورٹ کے ذریعے لیا جانا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ ججز کی تعیناتی کے رولز آئین کی حفاظت اور دفاع کے حلف کی عکاسی ہونے چاہئیں، اور ان کی رائے اس معاملے میں اس ترمیم اور کمیشن کی آئینی حیثیت طے ہونے سے مشروط ہے۔
https://twitter.com/x/status/1870327373297778871 جوڈیشل کمیشن کے اجلاس سے قبل جسٹس منصور علی شاہ نے ایک اور خط لکھا۔
سیکرٹری جوڈیشل کمیشن کو لکھے گئے خط میں انہوں نے کہا کہ آئینی بنچ کے لیے ججز کی تعیناتی کے لیے رولز کا ہونا ضروری ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ آئینی بنچ میں کتنے ججز ہوں گے، اس کا مکینزم بھی تیار کرنا چاہیے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ آئینی بنچ میں ججز کی شمولیت کا معیار طے ہونا چاہیے، اور ایک ممکنہ معیار یہ ہو سکتا ہے کہ کس جج نے آئینی تشریح کے کتنے فیصلے لکھے ہوں۔
انہوں نے ایک اور خط میں یہ نشاندہی کی کہ جوڈیشل کمیشن بغیر کسی واضح معیار کے سپریم کورٹ اور سندھ ہائیکورٹ میں آئینی بنچ تشکیل دے چکا ہے۔ علاوہ ازیں، انہوں نے ججز کی تعیناتی کے رولز پر اپنی مجموعی رائے بھی پیش کی ہے۔
خط میں جسٹس منصور علی شاہ نے انٹیلجنس ایجنسی سے رپورٹ لینے کی مخالفت کی، یہ کہتے ہوئے کہ اگر انٹیلجنس ایجنسی کو ایسا کردار دیا گیا تو اس کا غلط استعمال ہو سکتا ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ جوڈیشل کمیشن میں پہلے ہی اکثریت ایگزیکٹو کی ہے۔
مزید برآں، انہوں نے چھبیسویں ترمیم کے حوالے سے اپنی پوزیشن واضح کرتے ہوئے کہا کہ اس ترمیم کا جائزہ فل کورٹ کے ذریعے لیا جانا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ ججز کی تعیناتی کے رولز آئین کی حفاظت اور دفاع کے حلف کی عکاسی ہونے چاہئیں، اور ان کی رائے اس معاملے میں اس ترمیم اور کمیشن کی آئینی حیثیت طے ہونے سے مشروط ہے۔
Last edited by a moderator: