ایف بی آر کا قاضی فائز کی اہلیہ سرینہ عیسی کے خلاف جمع کروایا گیا آرڈر پبلک ہوگیا اور اب یہ آفیشلی طور پر اس آرڈر میں تسلیم کیا گیا ہے کہ قاضی فائز عیسی اور اہلیہ قاضی فائز عیسی کا ایم سی بی بینک میں ایک جوائینٹ فارن کرنسی اکاؤنٹ تھا جو کہ 2018 تک نہ تو قاضی فائز عیسی نے اپنے اثاثوں میں شو کیا ہوا تھا اور نہ ہی اہلیہ قاضی فائز عیسی سرینہ عیسی نے اپنے اثاثوں میں شو کیا ہوا تھا-- 1--ایف بی آر کے اس آرڈر میں یہ لکھا گیا ہے کہ سرینہ عیسی نے لندن پراپرٹیز خریدنے کے لیئے جو اکاؤنٹ استعمال کیا وہ سٹینڈرڈ چارٹرڈ اکاؤنٹ کا بینک اکاونٹ استعمال ہوا-- 2--آرڈر میں یہ لکھا ہے کہ سرینہ عیسی نے اپنی آمدنی کا جو ریکارڈ مہیا کیا اس ریکارڈ کے مطابق سرینہ عیسی لندن کی 3 پراپرٹیز خریدنے کے لیے پورے وسائل نہیں تھے 3--ایم سی بی کے ان ڈکلیئرڈ اکاؤنٹ کے بارے میں جب سوال پوچھا گیا تو سرینہ عیسی نے کہا انہیں اس اکاؤنٹ کے متعلق تحفظ قانون دیتا ہے جبکہ قانون فارن کرنسی اکاؤنٹ کو تحفظ ضرور دیتا ہے لیکن اس میں ہونے والی ٹرانزیکشنز کو تحفظ نہیں دیتا بلکہ قانون کے مطابق ایف بی آر کسی بھی مشکوک اکاؤنٹ کی ٹرانزیکشنز کی چھان بین کرسکتا ہے 4--سرینہ عیسی نے لندن کے فلیٹس جن پیسوں سے خریدے ایف بی آر نے ان پیسوں کا سورس آف انکم مانگا-- تو سرینہ عیسی ان پیسوں کا سورس آف انکم نہیں دے سکی- 5--- ایف بی آر کے آرڈر میں لکھا ہے کہ سرینہ عیسی نے جس فارن اکاؤنٹ سے پیسے لندن فلیٹس کی خریداری کے لیئے باہر بھجوائے اس اکاؤنٹ کو کھلوانے کا مقصد بچوں کی تعلیم تھا- اور جن کاغذوں کی مدد سے پیسے باہر ٹرانسفر کیئے ان پر بچوں کی تعلیم لکھا ہوا ہے- 6---ایف بی آر کے آرڈر میں لکھا ہے لندن کے فلیٹس سرینہ عیسی نے ان پیسوں سے خریدے جن کو کبھی اثاثوں میں ظاہر نہیں کیا گیا 7---ایف بی آر کے آرڈر میں لکھا ہے کہ 3 لندن فلیٹس میں 1 لندن فلیٹ 2004 ، دوسرا 2012 اور تیسرا 2013 میں خریدا گیا اور ان کو 2018 تک اثاثوں میں ظاہر نہیں کیا گیا 8--ایف بی آر کے آرڈر میں لکھا ہے کہ سرینہ عیسی نے موقف اختیار کیا کہ 2004 کے خریدے فلیٹ میں 100 فیصد شیئر سرینہ عیسی کا ہے ، جبکہ 2012 اور 2013 میں 50 فیصد شیئر سرینہ عیسی کا اور باقی 50 فیصد بچوں کا ہے-لیکن سرینہ عیسی اپنے اس موقف کو ثابت نہیں کرسکی- 9---ایف بی آر کے آرڈر میں لکھا ہے کہ سرینہ عیسی نے لندن فلیٹ کے سورس آف انکم میں زرعی آمدن دکھائی اور جس زرعی زمین کی آمدن دکھائی اس کو بھی اپنے اثاثوں میں شو نہیں کیا-یہ زرعی زمین بھی 2018 میں اپنے اثاثوں میں شو کی گئی- 10-- ایف بی آر کے آرڈر میں لکھا ہے کہ اس زرعی زمین کی آمدن کا جب ان سے کوئی ڈاکومینٹری پروف مانگا گیا تو اس زرعی زمین کی آمدن کا بھی کوئی پروف نہیں دے سکیں-- 11-ایف بی آر کے آرڈر میں لکھا ہے کہ پانامہ کی ججمینٹ میں یہ لکھا گیا ہے کہ قانون کے مطابق جب کوئی شخص کسی چیز کی ملکیت کو تسلیم کرلیتا ہے تو اس کا ثبوت ملزم نے پیش کرنا ہوتا ہے لہذا ان فلیٹس کا بار ثبوت سرینہ عیسی پر ہے کیونکہ وہ اس کو تسلیم کرچکی ہیں 12--ایف بی آر کے آرڈر میں لکھا ہے کہ جو منی ٹریل سرینہ عیسی نے پیش کی اس کی کوئی قانونی توجیح بھی پیش نہیں کرسکی لہذا لندن فلیٹ کی خریداری کے لیے پیش کی گئی سرینہ عیسی کی منی ٹریل لندن فلیٹ کی خریداری سے مطابقت نہیں رکھتی ہے- نوٹ: جوائینٹ اکاؤنٹ والی خبر اپنے منقول بھائی نے 1 مہینہ پہلے ہی بتادی تھی- وکیل صاحب!! اگر انکم ٹیکس کے لاء کو جانتے ہیں تو سرینہ عیسی تو گئی- اب چونکہ ایف بی آر کے مطابق سرینہ عیسی کے پاس اتنے سورس آف انکم نہیں تھے کہ وہ لندن کا فلیٹ کا خرید سکتی- اب باقی کے پیسے یا تو قاضی فائز عیسی کی طرف سے دیئے گئے جن کو ملا کر فلیٹ خریدا گیا یا پھر اسٹیبلیشمینٹ نے سرہانے کے نیچے رکھ دیئے "کہ لے میرا پتر لندن میں فلیٹ خرید لے-"