Antiam
Banned
آفتاب اسلام کی کرنیں جب سے فاران کی چوٹیوں پر پڑیں تب سے مسلمانوں نے جہاد کے عظیم فریضے اور نظریے کی حفاظت کے لیے لازوال قربانیاں دیں ۔ اس راہ کے بہت سےر اہروؤں نے اپنی آخری سانسیں بھی اس راہ میں پھونک دیں اور اس راہ کے مدارج طے کرتے ہوئے اعلی علیین تک جاپہنچے ۔ یہ سلسلہ اب تک جاری ہے ۔ا
س راہ کے راہرو اپنے ہدف کی جانب پورے عزم اور حوصلے کے ساتھ رواں دواں رہے ۔ جتنی بھی رکاوٹیں سامنے آئیں کبھی گبھرائے نہیں ک،بھی سستائے نہیں ۔ یہ اتنا عظیم جذبہ ہے کہ جس کے لیے مسلمان مال وعیال ، قریبی رشتہ داراور تمام دنیوی عیش وعشرت سب کچھ چھوڑنے پر تیار ہوجاتے ہیں یہ فلسفہء اسلام کی ایک خاص خصوصیت ہے ۔ یہ سب کچھ وہی شخص کرسکتا ہے جسے ایمانی جذبہ اور اسلامی احکامات میں سے وافر حصہ ملا ہو ۔
عارضی دنیاوی مفادات کے لیے اگر کوئی شخص مال وعیال اور رشتہ داریوں کی قربانی دیتا ہے تو یہ شاید آسان ہو مگر اپنی جان تک قربان کردینا یہ انسان کے بس میں نہیں۔ مالی مفادات کے لیے جان گنوانا انسان کے لیے آسان نہیں ہوتا ۔ یہ سب کچھ کرنے کے لیے روحانی جذ بے اور باطنی اوصاف کا ہونا ضروری ہے ۔ بہت سے ایسے کام عام انسانی فکر کے مطابق جن کا کرنا ناممکن ہوتا ہے اسی جذبے کے باعث انسان انجام دے لیتا ہے ۔ اور اگر کوئی کہتاہے کہ یہ سب کچھ ایمانی اور نظریاتی جذبے سے ہوتا ہے تو مومن عوام سے مقابلے کی قوت کافروں کو کیسے ملی؟
یہ اس لیے کہ انہیں بھی ایک ہدف اور نظریہ متعین کرکے دیا گیاہوتاہے اگرچہ یہ طاغوت کا راستہ ہوتا ہے مگر باطل عقیدے کی بنیاد پر یہ لوگ وہی کام سرانجام دیتے ہیں جو مسلمان اپنے پاک عقیدے کی خاطر سرانجام دیتے ہیں ۔ یہ سوچ اور نظریہ ان کےمذہبی پیشوا پوپ اس وقت اور بھی خوبصورت کرکے پیش کرتے ہیں جب وہ اپنے ملک سے اسلامی ملک کی جانب روانہ ہورہے ہوتے ہیں ۔ اس لیے یہ ظلم اور وحشت کے شعلوں میں لپٹے ہوئے نظرآتے ہیں ۔
باطل کے مقابلے میں جتنے بھی زیادہ تعداد میں مسلمان یا وہ ہستیاں جن سے امیدیں وابستہ کی جاتی ہیں شہید یا زخمی ہوجائیں ، اس راہ میں جتنے یتیم اور عقوبت خانوں میں قید کردیے جائیں تو اسے اسلام پسند قوتوں کی شکست سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا۔ کیوں کہ اس جنگ کی بنیاد افراد نہیں نظریہ ہے اور یہ ایک نہ ختم ہونے والا مقابلہ ہے ۔ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا باطل کے خلاف یہ جنگ قیامت تک جاری رہے گی ۔ تو جب تک اختلاف ہو اور زمین پر اللہ کا دین پوری طرح نافذ نہ ہوجائے ۔ یہ جنگ جاری رہے گی ۔ چودہ صدیوں سے اب تک مسلمان بے پناہ قربانیاں دیتے آرہے ہیں ۔
اپنی جانیں اللہ کے سپرد کررہے ہیں ، ان لوگوں نے اگر دنیا سے آنکھیں بندکرلی ہیں اور اپنے عام مسلمانوں کو بے آسرا چھوڑ کرگئے ہیں مگر ان کی عدم موجودگی اور شہادت سے اس تحریک کو کوئی نقصان نہیں ہوگا ۔ اس لیے کہ ہمارے اقدامات ، پیغامات ، جنگیں اور ساری کوششیں نظریے اور مذہب کی بنیادپر ہیں ۔ افراد سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ جن لوگوں نے جام شہادت نوش کیا وہ اپنے ہدف اور مقصد کوپاگئے ۔ ان کے نقصان کے باعث امارت اور قانون میں تبدیلی ناممکن ہے ۔
مثال کے طورپر جبل احد میں ہجرت کے تیسرے سال جو کچھ ہوا اور کافرجنگ بدر کا بدلہ لینے کے لیے مسلمانوں کے پاس مدینہ آگئے جیسے آج بھی مغربی کافر ہزاروں میل کا فاصلہ طے کرکے ہمارے پاس آئے ہیں ، اس جنگ میں بہت سے کبار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم شہید ہوئے۔ احد کے ان شہداء میں ہرایک اسلامی دنیا کے لیے ایک بڑی ہستی تھی ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ خصوصی طورپراس لیے قابل ذکرہیں کہ اس شہید کی تاریخ سے خصوصی موضوعات متعلق ہیں ۔ یہ کافروں کے ظلم ووحشت کا خصوصی اظہار تھا۔ اس غزوہ میں یہ افواہ بھی اڑائی گئی کہ پیغمبر علیہ السلام اور دیگر بڑے بڑے صحابہ کرام شہید کردیے گئے ہیں ۔
اس وقت ابوسفیان جو کافروں کی فوج کا سربراہ تھا خود کو بہت کامیاب اور فاتح سمجھ رہاتھا اس نے آواز لگائی افی القوم محمد ۔ کیا تم میں محمد ہیں ، افی القوم ابن ابی قحافہ ، کیا ابن ابوقحافہ یعنی ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تم میں موجود ہیں ، افی القوم عمر ابن خطاب؟ کیا تم میں عمر زندہ ہیں ۔ اس نے یہ نعرہ تین مرتبہ لگایا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم جواب مت دو، حضرت عمر کا حوصلہ تنگ ہوا انہوں نے پورے جذبے سے کہا : یہ محمد ہیں ،یہ ابوبکر ہیں اور یہ میں ہوں ۔ مگر جب ابوسفیان نے نظریے کی بات کی اور کہا اعلیٰ ھبل ، اور اپنے بتوں پر فخر کا اظہار کیا اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اب جواب دو۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کیسے جواب دیں ؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہو اللہ اعلی واجل**اللہ کی ذات اعلی اور اجل ہے**۔
ابوسفیان نے پھر کہا لنا العزی ولاعزی لکم ۔ ہمارے پاس عزی **بت** ہے اور تمہارے پاس یہ نہیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر کو ہدایت کی اور کہا تم کہو : لنا المولی ولا مولی لکم ۔ اس نے مزید کہا کہ یہ جنگ، بدر کے مقابلے میں ہے ۔وہاں تم نے ہمیں شکست دی یہاں ہم نے تم لوگوں کو شکست دے دی ۔ اس لیے ہم برابر ہوگئے ۔ حضور صلی اللہ نے فرمایا کبھی بھی برابر نہیں ہوسکتے اس لیے کہ ہمارے شہداء جنت میں ہیں اور تمہارے مردے دوزخ میں ۔ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب کی اجازت اس وقت تک نہ دی جب تک ابوسفیان نےعقیدے اور نظریے کے متعلق بات نہ کی ۔
جب تک ابوسفیان شخصیات کابات کرتا رہا اس وقت تک یہ جواب کے قابل نہ تھا کیوں کہ یہ پیغمبری قافلہ افراد اورشخصیات کی شہادت سے رکنے والا نہیں ۔ اور یہ اس سے اور بھی مضبوط ہوگا ۔اگرچہ بہت سے مسلمان شہید ہوگئے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی شہادت پرغم کا اظہار بھی کیامگر وہ اپنے گوہر مقصود کو پاگئے ہیں ۔ اس کایہ مطلب ہر گز نہیں کہ اس سے اسلامی فوج کمزور ہوجائے گی اوریہ کاررواں ناکامی سے دوچار ہوجائے گا ۔ اسلام کے مقدس دین میں افراد پر فخر کرنے سے منع کیا گیا ہے جیسا کہ غزوہ حنین میں مسلمانوں کی تعداد زیادہ تھی توانہیں اپنی کثرت پر ناز ہونے لگا ۔
اللہ تعالی کو یہ پسند نہ تھااس لیے اس جنگ میں صحابہ کرام کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے : اذ اعجبتکم کثرتکم فلم تغن عنکم شیئا وضاقت علیکم الارض بما رحبت۔ ترجمہ: وہ وقت یاد کرو جب تمہاری کثرت نے تمہیں دھوکے میں ڈالا اورتم پر زمین اپنی وسعت کے باوجود تنگ ہوگئی ۔ کیونکہ ایمانی جنگ کا تعلق ایمان سے ہے افرادی قوت پر اعتماداور تکیہ سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔
اسی طرح غزوہ موتہ میں جب کفار کی تعداد مسلمانوں کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ تھی ۔مسلمانوں کے ایک گھوڑے کے مقابلے میں ان کے پاس 100گھوڑے تھے ۔ شروع میں کچھ مسلمانوں نےزید بن حارثہ سے کہا کہ ہمیں جنگ نہیں لڑنی چاہیے کچھ نے کہا ہمیں ہم مدینہ منورہ اطلاع بھیجیں گے تاکہ کچھ اور مددآجائے ۔ مگر مسلمانوں کے امیر زیدبن حارثہ نے عبداللہ بن رواحہ کو مشورے کے طورپرایسا کہا تو انہوں نے ایک تقریر کی اور فرمایا لسنا نقاتلھم بعدد ولاعدۃ۔ ہم اسباب وسائل اور افراد کی بنیاد پر نہیں لڑتے ۔ بلکہ ہماری جنگ صرف اورصرف اللہ تعالی کی ذات پر توکل اور اس کی رضا کے لیے ہے ۔
اس لیے مخالف لشکر جتنا بھی بڑا ہو ہم اس سے لڑیں گے اور کبھی بھی ان کی تعداد سے متاثر نہیں ہوں گے ۔ اسی لیے جب جنگ ہوئی تو کثرت کے باوجود شکست کافروں کا مقدربنی ۔ اس غزوہ میں اگرچہ مسلمانوں کی بڑی تعداد شہید ہوگئی جن میں عبداللہ ابن رواحہ ،زید ابن حارثہ اوردیگر صحابہ کرام مگر پھربھی اس جنگ کو اسلام کی نفع قراردیا گیا ۔ کیوں کہ یہ جنگ کفار کے خلاف اللہ تعالی کے قانون کے نفاذ کے لیے کفار کے خلاف تھی ، وہ مقصد پوراہوگیا ۔ اور جو افراد اس میں شہید ہوئے وہ اپنے مقصد کو حاصل کرگئے ۔
اسی مقصد یعنی کفار کے نظریے کے خاتمے اوراسلام کی ترویج کے لیے سرداردوجہاں نے کافر بادشاہوں کے تحائف بھی قبول کیے اور جب انہوں نے اسلام کے خلاف کوئی اقدام کرنے کی کوشش کی تویہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں ناقابل برداشت بھی تھا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا کافروں کے ساتھ حسن سلوک اس بات کا شاہد ہے کہ اسلام حسن سلوک اور اچھے تعلق کا کس قدر خواہاں ہے ۔ جس طرح روم کے بادشاہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو تحفہ بھی بھیجا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے خط کی قدر بھی کی ۔
مگر جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا کہ وہ اسلام کے خلاف اقدام کرنے کی تیاریوں میں ہیں تومدینہ منورہ میں ایک بڑے جنگ کی تیاری شروع ہوئی ۔ تمام مسلمانوں کوحکم دیا گیا کہ اس عظیم جنگ میں جان ومال کے ساتھ شریک ہوجائیں ۔ اس طرح تبوک کا عظیم غزوہ پیش آیا ۔ اسے جیش العسرہ بھی کہا جاتاہے یعنی سختیوں اورمشکلات کا لشکر ، یہ لشکر انتہائی مشکلات اور تکالیف کے ساتھ روم پہنچا۔اس لشکر نے ایک مہینے تک مسلسل پیدل سفرکیا ۔ پہلے تحائف کا قبول کرنا اور جب عقیدے پر زد پڑی تو ایسے لشکر کی تیاری کہ تمام مسلمانوں کو اس میں شرکت کا حکم دیا گیا اورجو پیچھے رہ گئے ان کی معافی بھی ان کی انتہائی عاجزی کے بعد ہوئی ۔
دنیا والوں کو یادرکھنا چاہیے کہ ان مسلمانوں کو جتنا بھی آپ شہید کریں ، ان کے گھروں پر بمباری کریں ، ان کے بچے یتیم کریں، ان کے ائمہ مساجد کے خون سے مساجد کو رنگین کردیں ،شادیوں میں ان کی خواتین کو شہید کردیں ، ملک کے نوجوانوں کو پہاڑوں اور گھروں میں چاپے مارکر شہید کردیں پھر بھی یہ سلسلہ رکنےوالا نہیں ۔ کیونکہ یہ اسی پیغمبر کابنایا ہوا لشکر ہے جن کا یقین افراد اور شخصیات پر نہیں بلکہ ان کا توکل اللہ کی ذات اور رضا پر ہے آپ جتنی بھی اس آگ کو بجھانے کی کوشش کریں گے یہ اوربھی تازہ ہوگی ۔ یہ مخالف ہوا آگ کے شعلوں کو اوربھڑکائے گی ۔
جولوگ شہید ہوں گے وہ جنت کی طرف جائیں گے ان کے خون کاہر قطرہ تمھارے لیے انتقام کا پیغام ہوگا ۔ دشمن کبھی بھی اس زمین سے کامیاب واپس نہیں لوٹے گا ۔تمہارا آخری انجام بھی مسلمانوں کے مٹی میں ہوگا۔ اورخصوصی طورپر افغانستان کی مٹی ان کے لیے قبرستان بنے گی ، یہ انقلابی مٹی ایک طویل تاریخ رکھتی ہے ۔ تمہیں بھی اس نامور دائمی تاریخ کا ایک نمونہ دکھائیں گے
س راہ کے راہرو اپنے ہدف کی جانب پورے عزم اور حوصلے کے ساتھ رواں دواں رہے ۔ جتنی بھی رکاوٹیں سامنے آئیں کبھی گبھرائے نہیں ک،بھی سستائے نہیں ۔ یہ اتنا عظیم جذبہ ہے کہ جس کے لیے مسلمان مال وعیال ، قریبی رشتہ داراور تمام دنیوی عیش وعشرت سب کچھ چھوڑنے پر تیار ہوجاتے ہیں یہ فلسفہء اسلام کی ایک خاص خصوصیت ہے ۔ یہ سب کچھ وہی شخص کرسکتا ہے جسے ایمانی جذبہ اور اسلامی احکامات میں سے وافر حصہ ملا ہو ۔
عارضی دنیاوی مفادات کے لیے اگر کوئی شخص مال وعیال اور رشتہ داریوں کی قربانی دیتا ہے تو یہ شاید آسان ہو مگر اپنی جان تک قربان کردینا یہ انسان کے بس میں نہیں۔ مالی مفادات کے لیے جان گنوانا انسان کے لیے آسان نہیں ہوتا ۔ یہ سب کچھ کرنے کے لیے روحانی جذ بے اور باطنی اوصاف کا ہونا ضروری ہے ۔ بہت سے ایسے کام عام انسانی فکر کے مطابق جن کا کرنا ناممکن ہوتا ہے اسی جذبے کے باعث انسان انجام دے لیتا ہے ۔ اور اگر کوئی کہتاہے کہ یہ سب کچھ ایمانی اور نظریاتی جذبے سے ہوتا ہے تو مومن عوام سے مقابلے کی قوت کافروں کو کیسے ملی؟
یہ اس لیے کہ انہیں بھی ایک ہدف اور نظریہ متعین کرکے دیا گیاہوتاہے اگرچہ یہ طاغوت کا راستہ ہوتا ہے مگر باطل عقیدے کی بنیاد پر یہ لوگ وہی کام سرانجام دیتے ہیں جو مسلمان اپنے پاک عقیدے کی خاطر سرانجام دیتے ہیں ۔ یہ سوچ اور نظریہ ان کےمذہبی پیشوا پوپ اس وقت اور بھی خوبصورت کرکے پیش کرتے ہیں جب وہ اپنے ملک سے اسلامی ملک کی جانب روانہ ہورہے ہوتے ہیں ۔ اس لیے یہ ظلم اور وحشت کے شعلوں میں لپٹے ہوئے نظرآتے ہیں ۔
باطل کے مقابلے میں جتنے بھی زیادہ تعداد میں مسلمان یا وہ ہستیاں جن سے امیدیں وابستہ کی جاتی ہیں شہید یا زخمی ہوجائیں ، اس راہ میں جتنے یتیم اور عقوبت خانوں میں قید کردیے جائیں تو اسے اسلام پسند قوتوں کی شکست سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا۔ کیوں کہ اس جنگ کی بنیاد افراد نہیں نظریہ ہے اور یہ ایک نہ ختم ہونے والا مقابلہ ہے ۔ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا باطل کے خلاف یہ جنگ قیامت تک جاری رہے گی ۔ تو جب تک اختلاف ہو اور زمین پر اللہ کا دین پوری طرح نافذ نہ ہوجائے ۔ یہ جنگ جاری رہے گی ۔ چودہ صدیوں سے اب تک مسلمان بے پناہ قربانیاں دیتے آرہے ہیں ۔
اپنی جانیں اللہ کے سپرد کررہے ہیں ، ان لوگوں نے اگر دنیا سے آنکھیں بندکرلی ہیں اور اپنے عام مسلمانوں کو بے آسرا چھوڑ کرگئے ہیں مگر ان کی عدم موجودگی اور شہادت سے اس تحریک کو کوئی نقصان نہیں ہوگا ۔ اس لیے کہ ہمارے اقدامات ، پیغامات ، جنگیں اور ساری کوششیں نظریے اور مذہب کی بنیادپر ہیں ۔ افراد سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ جن لوگوں نے جام شہادت نوش کیا وہ اپنے ہدف اور مقصد کوپاگئے ۔ ان کے نقصان کے باعث امارت اور قانون میں تبدیلی ناممکن ہے ۔
مثال کے طورپر جبل احد میں ہجرت کے تیسرے سال جو کچھ ہوا اور کافرجنگ بدر کا بدلہ لینے کے لیے مسلمانوں کے پاس مدینہ آگئے جیسے آج بھی مغربی کافر ہزاروں میل کا فاصلہ طے کرکے ہمارے پاس آئے ہیں ، اس جنگ میں بہت سے کبار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم شہید ہوئے۔ احد کے ان شہداء میں ہرایک اسلامی دنیا کے لیے ایک بڑی ہستی تھی ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ خصوصی طورپراس لیے قابل ذکرہیں کہ اس شہید کی تاریخ سے خصوصی موضوعات متعلق ہیں ۔ یہ کافروں کے ظلم ووحشت کا خصوصی اظہار تھا۔ اس غزوہ میں یہ افواہ بھی اڑائی گئی کہ پیغمبر علیہ السلام اور دیگر بڑے بڑے صحابہ کرام شہید کردیے گئے ہیں ۔
اس وقت ابوسفیان جو کافروں کی فوج کا سربراہ تھا خود کو بہت کامیاب اور فاتح سمجھ رہاتھا اس نے آواز لگائی افی القوم محمد ۔ کیا تم میں محمد ہیں ، افی القوم ابن ابی قحافہ ، کیا ابن ابوقحافہ یعنی ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تم میں موجود ہیں ، افی القوم عمر ابن خطاب؟ کیا تم میں عمر زندہ ہیں ۔ اس نے یہ نعرہ تین مرتبہ لگایا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم جواب مت دو، حضرت عمر کا حوصلہ تنگ ہوا انہوں نے پورے جذبے سے کہا : یہ محمد ہیں ،یہ ابوبکر ہیں اور یہ میں ہوں ۔ مگر جب ابوسفیان نے نظریے کی بات کی اور کہا اعلیٰ ھبل ، اور اپنے بتوں پر فخر کا اظہار کیا اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اب جواب دو۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کیسے جواب دیں ؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہو اللہ اعلی واجل**اللہ کی ذات اعلی اور اجل ہے**۔
ابوسفیان نے پھر کہا لنا العزی ولاعزی لکم ۔ ہمارے پاس عزی **بت** ہے اور تمہارے پاس یہ نہیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر کو ہدایت کی اور کہا تم کہو : لنا المولی ولا مولی لکم ۔ اس نے مزید کہا کہ یہ جنگ، بدر کے مقابلے میں ہے ۔وہاں تم نے ہمیں شکست دی یہاں ہم نے تم لوگوں کو شکست دے دی ۔ اس لیے ہم برابر ہوگئے ۔ حضور صلی اللہ نے فرمایا کبھی بھی برابر نہیں ہوسکتے اس لیے کہ ہمارے شہداء جنت میں ہیں اور تمہارے مردے دوزخ میں ۔ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب کی اجازت اس وقت تک نہ دی جب تک ابوسفیان نےعقیدے اور نظریے کے متعلق بات نہ کی ۔
جب تک ابوسفیان شخصیات کابات کرتا رہا اس وقت تک یہ جواب کے قابل نہ تھا کیوں کہ یہ پیغمبری قافلہ افراد اورشخصیات کی شہادت سے رکنے والا نہیں ۔ اور یہ اس سے اور بھی مضبوط ہوگا ۔اگرچہ بہت سے مسلمان شہید ہوگئے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی شہادت پرغم کا اظہار بھی کیامگر وہ اپنے گوہر مقصود کو پاگئے ہیں ۔ اس کایہ مطلب ہر گز نہیں کہ اس سے اسلامی فوج کمزور ہوجائے گی اوریہ کاررواں ناکامی سے دوچار ہوجائے گا ۔ اسلام کے مقدس دین میں افراد پر فخر کرنے سے منع کیا گیا ہے جیسا کہ غزوہ حنین میں مسلمانوں کی تعداد زیادہ تھی توانہیں اپنی کثرت پر ناز ہونے لگا ۔
اللہ تعالی کو یہ پسند نہ تھااس لیے اس جنگ میں صحابہ کرام کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے : اذ اعجبتکم کثرتکم فلم تغن عنکم شیئا وضاقت علیکم الارض بما رحبت۔ ترجمہ: وہ وقت یاد کرو جب تمہاری کثرت نے تمہیں دھوکے میں ڈالا اورتم پر زمین اپنی وسعت کے باوجود تنگ ہوگئی ۔ کیونکہ ایمانی جنگ کا تعلق ایمان سے ہے افرادی قوت پر اعتماداور تکیہ سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔
اسی طرح غزوہ موتہ میں جب کفار کی تعداد مسلمانوں کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ تھی ۔مسلمانوں کے ایک گھوڑے کے مقابلے میں ان کے پاس 100گھوڑے تھے ۔ شروع میں کچھ مسلمانوں نےزید بن حارثہ سے کہا کہ ہمیں جنگ نہیں لڑنی چاہیے کچھ نے کہا ہمیں ہم مدینہ منورہ اطلاع بھیجیں گے تاکہ کچھ اور مددآجائے ۔ مگر مسلمانوں کے امیر زیدبن حارثہ نے عبداللہ بن رواحہ کو مشورے کے طورپرایسا کہا تو انہوں نے ایک تقریر کی اور فرمایا لسنا نقاتلھم بعدد ولاعدۃ۔ ہم اسباب وسائل اور افراد کی بنیاد پر نہیں لڑتے ۔ بلکہ ہماری جنگ صرف اورصرف اللہ تعالی کی ذات پر توکل اور اس کی رضا کے لیے ہے ۔
اس لیے مخالف لشکر جتنا بھی بڑا ہو ہم اس سے لڑیں گے اور کبھی بھی ان کی تعداد سے متاثر نہیں ہوں گے ۔ اسی لیے جب جنگ ہوئی تو کثرت کے باوجود شکست کافروں کا مقدربنی ۔ اس غزوہ میں اگرچہ مسلمانوں کی بڑی تعداد شہید ہوگئی جن میں عبداللہ ابن رواحہ ،زید ابن حارثہ اوردیگر صحابہ کرام مگر پھربھی اس جنگ کو اسلام کی نفع قراردیا گیا ۔ کیوں کہ یہ جنگ کفار کے خلاف اللہ تعالی کے قانون کے نفاذ کے لیے کفار کے خلاف تھی ، وہ مقصد پوراہوگیا ۔ اور جو افراد اس میں شہید ہوئے وہ اپنے مقصد کو حاصل کرگئے ۔
اسی مقصد یعنی کفار کے نظریے کے خاتمے اوراسلام کی ترویج کے لیے سرداردوجہاں نے کافر بادشاہوں کے تحائف بھی قبول کیے اور جب انہوں نے اسلام کے خلاف کوئی اقدام کرنے کی کوشش کی تویہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں ناقابل برداشت بھی تھا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا کافروں کے ساتھ حسن سلوک اس بات کا شاہد ہے کہ اسلام حسن سلوک اور اچھے تعلق کا کس قدر خواہاں ہے ۔ جس طرح روم کے بادشاہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو تحفہ بھی بھیجا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے خط کی قدر بھی کی ۔
مگر جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا کہ وہ اسلام کے خلاف اقدام کرنے کی تیاریوں میں ہیں تومدینہ منورہ میں ایک بڑے جنگ کی تیاری شروع ہوئی ۔ تمام مسلمانوں کوحکم دیا گیا کہ اس عظیم جنگ میں جان ومال کے ساتھ شریک ہوجائیں ۔ اس طرح تبوک کا عظیم غزوہ پیش آیا ۔ اسے جیش العسرہ بھی کہا جاتاہے یعنی سختیوں اورمشکلات کا لشکر ، یہ لشکر انتہائی مشکلات اور تکالیف کے ساتھ روم پہنچا۔اس لشکر نے ایک مہینے تک مسلسل پیدل سفرکیا ۔ پہلے تحائف کا قبول کرنا اور جب عقیدے پر زد پڑی تو ایسے لشکر کی تیاری کہ تمام مسلمانوں کو اس میں شرکت کا حکم دیا گیا اورجو پیچھے رہ گئے ان کی معافی بھی ان کی انتہائی عاجزی کے بعد ہوئی ۔
دنیا والوں کو یادرکھنا چاہیے کہ ان مسلمانوں کو جتنا بھی آپ شہید کریں ، ان کے گھروں پر بمباری کریں ، ان کے بچے یتیم کریں، ان کے ائمہ مساجد کے خون سے مساجد کو رنگین کردیں ،شادیوں میں ان کی خواتین کو شہید کردیں ، ملک کے نوجوانوں کو پہاڑوں اور گھروں میں چاپے مارکر شہید کردیں پھر بھی یہ سلسلہ رکنےوالا نہیں ۔ کیونکہ یہ اسی پیغمبر کابنایا ہوا لشکر ہے جن کا یقین افراد اور شخصیات پر نہیں بلکہ ان کا توکل اللہ کی ذات اور رضا پر ہے آپ جتنی بھی اس آگ کو بجھانے کی کوشش کریں گے یہ اوربھی تازہ ہوگی ۔ یہ مخالف ہوا آگ کے شعلوں کو اوربھڑکائے گی ۔
جولوگ شہید ہوں گے وہ جنت کی طرف جائیں گے ان کے خون کاہر قطرہ تمھارے لیے انتقام کا پیغام ہوگا ۔ دشمن کبھی بھی اس زمین سے کامیاب واپس نہیں لوٹے گا ۔تمہارا آخری انجام بھی مسلمانوں کے مٹی میں ہوگا۔ اورخصوصی طورپر افغانستان کی مٹی ان کے لیے قبرستان بنے گی ، یہ انقلابی مٹی ایک طویل تاریخ رکھتی ہے ۔ تمہیں بھی اس نامور دائمی تاریخ کا ایک نمونہ دکھائیں گے
- Featured Thumbs
- http://www.shahamat-urdu.com/images/1-gh_lnd_thumb.jpg
Last edited by a moderator: