جہانگیرترین کے مطابق تحریک استحکام پاکستان پارٹی کے صدر عبدالعلیم خان ہوں گے۔
https://twitter.com/x/status/1668205406697541632
جہانگیرترین کے مطابق عامرکیانی پارٹی کے سیکرٹری جنرل، عون چوہدری ایڈیشنل سیکرٹری جنرل اور پارٹی کے ترجمان ہوں گے۔
حالات جس طرف جا رہے ن لیگ والے بڑے پریشان ہے مریم نے تو چپ تان لی ہے کئی کئی دن ٹویٹ ہی نہیں کرتی کہتے ہے پٹواریوں کے بڑے بڑے رہنماوں نے غور فکر کیا ہے اور وہ انتہائی پریشان سر پکڑ کر بیٹھے ہے پیپل پارٹی نے بھی ان سے منہ موڑ لیا ہے کہ اس ڈوپبتی کشتی سے بچو بلکہ کئی جگہوں پر تو وہ انہیں پشانتے تک نہیں ان کی پتلونے گیلی ہے خوف ان پر طاری ہے کہ بڑی درگت بننے والی ہے ہمارے پاس کوئی بیانیہ نہیں ہے نہ حکومتی کاکردگی ہے جس پر ہم الیکشن لڑے گے کیا بیچے گے عوام کو کس طرح بیوقوف بنائے گے زیادہ آبادی نوجوانوں کی ہے ان کا الیکشن کمپین میں سامنا کرنا پرے گا اور جواب دینا بڑے گا کہ صحت کارڈ ، بلین ٹری ، احساس پروگرام دس ڈیموں ، راوی فرنٹ واٹر سٹی اور کرونا جیسے سمارٹ لاک ڈاون کے مقابلے پر تم نے کیا کیا
اگر کہیں گے ہم حکومت میں آکر یہ کریں گے تو واپس جواب ایک زناٹے دار تھپڑ کی طرح ملتا ہے تو تم تیرہ جماعتوں نے ڈیڑھ سال حکومت کی کوئی اپوزیشن نہیں تھی کیا کیا کیوں نہیں کیا یہ تو یہ بھی نہیں کہہ سکتے پٹرول آٹا دالیں کوکنگ آئل سستا کرے گے جن کی قیمتیں انہوں نے خود آسمانوں تک پہنچائی ہے کیا یہ کہے گے اکانومی بہتر کرے گے اس کا بیڑا غرق تو انہوں نے خود کیا ہے کہاں انہیں سولہ سترہ ارب ڈالر خزانہ عمران خان قاسم کے ابا سے ملا تھا اور انہوں نے صر ف ڈیڑھ سال میں تین چار ارب ڈالر پر پہنچا دیا امن و امان کا عالم یہ ہے کہ خود بار بار عدالتوں میں کہتے ہے ملکی حالات انتہائی خراب ہے یہ تو ڈیڑھ سال میں آئی ایم ایف کو نہیں منا سکے اپنی کارکردگی سے آئی ایم ایف نے تو انہیں جوتے کی نوک پر رکھا ہوا ہے کوئی پروگرام ان کے ساتھ سائن نہیں کیا ۔۔۔ کوئی ملک ان کی امداد نہیں کر رہا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب انہوں نے جس چھوٹی سی بات سے امید لگائی ہے کہ تحریک انصاف کے لوگ چھوڑ رہے ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پچاس پچاس سال کا تجربہ رکھنے والے سیاسی پنڈٹ کہتے ہے یہ بات بھی ن لیگ اور اس کی اتحادیوں یعنی پی ڈی ایم کے خلاف جائے گی اس وقت تحریک انصاف چھوڑنے والے زیادہ تر وہی لوگ ہے جو پہلے بھی کئی کئی جماعتیں بدل چکے ہے جیسے ڈبو فواد کو ہی لے لیں وہ پہلے پیپلز پارٹی اور پھر قائد لیگ مشرف لیگ پتا نہیں کہاں کہاں کئی کئی جگہوں پر منہ مار چکا ہے اسی طرح جہانگر ترین علیم خان فیاض چوہان فردوس اعوان وغیرہ وغیرہ بھی پہلے کئی کئی پارٹیاں بدل چکے ہے ان اپنا نہ کوئی نظریہ نہ ووٹ ہے ان کا انجام بھی جاوید ہاشمنی گلالئی ریحام خان وغیرہ وغیرہ سے مختلف نہیں ہو گا لہذا اب تحریک انصاف میں ان کا نظریاتی کارکن اوپر آ جائے گا جو کہ ان کے لیے انتہائی سخت حریف ثابت ہو گا جس میں ان بھاگنے والو سے زیادہ ثابت قدمی ہو گی لہذا ڈر ہے کہ یہ زیادہ مظبوط ہو کر سامنے آئے گے کیوں کہ الیکٹیبلز لینے کی وجہ سے ان میں اور پرانے ورکر ز میں ایک خلا ہو ا کرتا تھا جس کا فائدہ پی تی آئی مخالفین کو ہوتا تھا اب وہ خلا ختم ہو گیا تو یہ زیادہ سخت جان حریف ہوں گے اپنا ووٹ بنک پہلے سے زیادہ مضبوتی سے منظم کرے گے
اور ویسے بھی عمران خان کی جماعت اپنے حلقوں میں کئی کئی مقابلہ کرنے والے کارکن رکھتی ہے لوگ ٹکٹ لینے کے لیے لائنوں میں کھڑے ہے یاد کرو سولہ جولائی دوہزار اکیس پنجاب کا میدان تھا چلو یہاں ایک سیٹ پر بات کرتے ہے علیم خان کا حلقہ گڑھی شاہو تھا عمران خان نے اپنے ایک عام سے ورکر شبیر کجر کو ٹکٹ دے کر میدان میں اتارا تھا ہر کوئی کہتا تھا یہ کیا کیا عمران خان نے یہ تو مقابلے کی سیٹ تھی اور اسی شبیر گجر نے دن کی روشنی میں بائی الیکشن میں حمزہ شہباز کی صوبائی حکومت شہباز شریف کی وفاقی حکومت ہونے کے باوجود شکست دی تھی جبکہ اس کے مقابلے پر نزیر احمد چوہان تھا جسے حکومتی ہر طرح سے حمایت حاصل تھی پیچھے رہ کر علیم خان اس پر بے دریغ پیسہ خرچ کر رہا تھا لیکن چالیس ہزار ووٹ لے کر چودہ ہزار کی چوہان کو لیڈ مار کر شبیر گجر چیتے کی طرح جیتا تھا چوہان دوران کمپین ہر حربہ آزمایا پولیس اس کے ساتھ تھی ان سے ریڈیں کرواتا تھا شبیر گجر کو کمپین کرنے سے روکتا تھا اس کے جلسے تک چوہان نہیں ہونے دیتا تھا کہیں الیکش کمپین دفتر نہیں کھلنے دیتا تھا اس پر میڈیا بھی چیخ اٹھا تھا اور پھر جتنے پر ہر کوئی کہتا تھا کمال سیٹ لی ہے شبیر گجر نے دوسرے لفظوں دھول چٹا دی اپنے مخالف کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شبیر گجر نے شیر کے جبڑے سے سیٹ نکالی تھی جبکہ یہ ایک عام پی ٹی آئی کا کارکن تھا سولہ جولائی پی ٹی آئی بیس میں سے پندرہ سیٹیں جیتی تھی