جیت کی کچھ علامات

xshadow

Minister (2k+ posts)
پہلی علامت تو ہے توسیع' وہ بھی ایک نہیں دو نہیں تین تین۔
بظاہر تو یہ مایوسی کی علامت ہونی طاہیے جبکہ انہی عہدیداروں نے آگ اور خون کا بازار گرم کررکھا تھا انہی کو مزید توسیع مل رہی ہے۔

مگر اسی خیر سے شر کا پہلو نکلے گا اللہ کے حکم سے۔
اسکو سمجھنے کے لیے سب سے پہلے تو یہ سمجھ لیں کہ جو بھی مایوسی پھیلا رہے ہیں وہ یہ کہتے ہوئے نظر آئیں گے کہ یہ نظام ہی ایسا ہے یا عوام ہی ایسی ہے وغیرہ وغیر۔

تو حضور اگر نظام ہی ایسا ہے تو پھر توسیع کی ضرورت ہی کیا تھی؟ توسیع دینے کا مطلب ہے کہ نظام تو گیا۔ یعنی اگر نظام نہیں بدلنا تھا تو قاضی ریٹائر ہوجائے نہ' توسیع کیوں لے رہا ہے؟ اسی طرح آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کی توسیع بھی یہی دلیل دے رہی ہیں کہ نظام تو بدلنا ہی بدلنا ہے چاہے آج بدلے یا کل۔ کیونکہ اگلا چیف ہو یا قاضی' دونوں کو اول درجے کا اندھا اور بہرا ہونا پڑے گا جو کہ آج کے دور میں بہت مشکل ہے۔ ماضی ان مثالوں سے بھرا پڑا ہے جبکہ ایک آرمی چیف کے غیر مقبول ہونے کے بعد اگلے کو مجبوراً پیچھے ہٹنا پڑا۔
ایوب خان کے بعد موسی خان کا نام اتنا متنازعہ نہیں ہے۔
یاحیہ خان کے بعد گل حسن اور ٹکا خان اتنے متنازعہ نہیں رہے۔
ضیاء کے بعداسلم بیگ' جنجووا' کاکڑ اور کرامت اتنے متنازعہ نہیں رہے۔
مشرف کے بعد کیانی اور راحیل شریف اتنے متنازعہ نہیں رہے۔

یہ پہلی بار دیکھنے میں آیا ہے کہ ایک ڈکٹیٹر باجوہ سے دوسرے ڈیکٹیٹر یعنی عاصم منیر نے چارج سنبھالا ہے۔ اور یہ بھی چشم فلک نے دیکھا ہے کہ جو کام مارشل لاء میں ہوا کرتے تھے وہ سولین کور میں کیے جارہے ہیں۔ یہ بھی ایک بہت بڑی نشانی ہے کہ نظام گررہا ہے۔

اور ڈر یہ پڑگیا ہے کہ کس جرنل نے کتنا پیسہ بنایا اور کیسے کیسے عسکری اداروں نے دلیہ سے لیکر پراپرٹی تک ہر کاروبار پر اپنی اجارا داری قائم کررکھی ہے۔ سب سے بڑ کر یہ کہ کیسے خفیہ ادارے دشمن ممالک کی جاسوسی کی بجائے اپنے لوگوں کی جاسوسی فرما رہے ہیں بلکہ انکو اٹھا کر برہنہ کرکے ویڈیوز بنا رہے ہیں۔ دھاندلی تو اب ویسے ہی انکے ہاتھوں سے نکل گئی ہے اور اسی لیے سیدھا فارم 47 پر من پسند نتائج ڈال دیے جاتے ہیں۔ اسی سے منسلک ایک توسیع اور بھی ہے جسکا زکر کرنا ضروری ہے یعنی الیکشن کمشنر سقندر سلطان راجہ کی مدد ملازمت بھی بڑھانے کا عندیہ دیا جا چکا ہے۔ سوال پھر وہی ہے کہ وہ کیا ہے جو اگلا الیکشن کمشنر نہیں کرسکتا جو موجودہ لفنڑ سے کروانا ہے؟ یہ نظام ہی گرنے کی علامت ہے۔

رہ گئی یہ بات کہ عوام ہی ایسی ہے تو یہ بھی حوا بنا ہوا تھا رجیم چینچ سے پہلے۔ جسطرح عوام میں شعور بیدار ہوچکا ہے اس سے نہیں لگتا کہ یہ وہ عوام ہیں جو کبھی بریانی پر ووٹ بیچا کرتے تھے۔

جیت کا یقین ہو تو کھیل اور لڑائی کا بھی اپنا ہی مزا ہوتا ہے۔ اس جیت کو کیسے اور کتنا قریب لانا ہے اسکا انحصار ان باتوں پر ہے۔

توسیع شدگان کب اور کیسے ٹوٹیں گے۔ ویسے تو جتنا یہ ڈرے ہوئے بیٹھے ہیں اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انکو جان کا بھی شدید خطرہ ہے۔ دوسرا انہوں نے چھوٹے اور بڑے بھائی کی لڑائی کروا کر خود ہی قوم کو بتا دیا ہے کہ کوئی بھی بڑے بھائی کا کوٹ پہن کر آئے اور چھوٹے بھائی پر چڑھائی کردے تو کسی کو کیا پتا چلے گا کہ کس کی غلطی تھی۔ غلطی چھوٹے کی نکلے یا بڑے کی مگر کیونکہ دونوں ہی عوام کے دلوں سے اتر چکے ہیں اسلیے کیا فرق پڑتا ہے چاہے یہ ایک دوسرے کا سر پھاڑ دیں تاکہ عدالت نہ سہی مگر قدرت تو انکا انصاف کرے تاکہ انکو عقل آئے کہ جس عدالت اور قانون نے انہیں بھی تحفظ دینا تھا اسی کو انہوں نے ٹکے ٹوکری کررکھا ہے۔

دوسرا انکے ٹوٹنے کی وجہ بنے گی انکا سماجی قطع تعلق۔ اسکے لیے ان کے سارے رشتے دار جو ان سے ملتے ہیں' انکے دوست احباب' اور وہ جو ان سے کاروبار یا دوسرے معاملات کرتے ہیں مثلا درزی' قصائی' حجام وغیرہ۔ انہیں بتائیں کہ آپ جب تک توسیع شدگان سے میل جول رکھیں گے تب تک آپ سے کوئی تعلق نہیں رکھا جائیگا۔ حتہ کہ لوگ اعلانیہ ان سے قطع تعلق کریں اور عوام سے معافی مانگیں۔ یہاں تک کہ انکے ملازمین تک سے قطع تعلق کریں۔ اگر ان سے کاروباری معاملات ترک کرنا مشکل ہے تو ان سے عوام کی نسبت زیادہ قیمت وصول کریں۔

تیسرا انکے ٹوٹنے کی وجہ ہے طبعی موت کیونکہ اللہ تعالہ کے ہاں توسیع کا چکر نہیں ہے۔ جو رات قبر میں ہے وہ آکر رہے گی چاہے جتنا مرضی چلے کاٹیں۔ اسی لیے میں نے عرض کی تھی کہ جیت تو یقینی ہے چاہے اس طرح ہو یا اسطرح۔ موت تو پھر بھی آخر وار ہے جو قدرت چلے گی مگر اس سے پہلے ہی یہ لوگ ٹوٹ جائیں گے۔ افراطری اتنی بڑھ جائیگی کہ انکو خود باروں میں جانے سے ڈر لگے گا کہ کہیں انکو کوئی پہچان نہ لے۔ یہ گھر میں قید ہوکر رہ جائیں گے یا پھر بیرون ملک بھاگ جائیں گے جو کہ انکے ٹوٹنے کی ایک اور نشانی ہے۔





 
Last edited by a moderator: