حامد میر ایک بار پھر پانی سے چلنے والی گاڑی کا تذکرہ لیکر بیٹھ گئے۔
گزشتہ دنوں حامد میر نے شمالی وزیرستان سے ایک شو کیا جس میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ شمالی وزیرستان میں 6 ٹریلین ڈالر کے ذخائر ہیں۔
سوشل میڈیا صارفین کی اکثریت نے حامد میر کے اس دعوے کو پانی سے چلنے والی گاڑی جیسا دعویٰ قرار دیا، ایک سوشل میڈیا صارف نے حامدمیر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میر صاحب وہ پانی سے گاڑی چلانے والی بات کے بعد سے اس طرح کی باتوں سے اعتبار ہی اٹھ گیا
جس پر حامد میر نے سخت ردعمل دیا اور اپنے ٹوئٹر پیغام میں کہا کہ کہ پانی سے بننے والی ہائیڈروجن گیس سے گاڑیاں چلانے کا سلسلہ سب سے پہلے جاپان میں شروع ہوا تھا لیکن پٹرول بیچنے والوں نے یہ کام وہاں بند کرا دیا یہی کام پاکستان میں شروع ہوا تو ہائیڈروجن کٹ بنانے ولا بندہ ہی غائب کرا دیا گیا
تنقید کرنیوالے سوشل میڈیا صارف کو حامد میر نے بی بی سی کا لنک دیتے ہوئے کہا کہ آپ ذرا بی بی سی کی یہ رپورٹ سن لیں اور اپنے اعتبار کی صحت کا دوبارہ جائزہ لیں
اس پر سوشل میڈیا صارفین نے حامدمیر کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ یہ بندہ ابھی بھی پانی سے چلنے والی گاڑی والی کھچ پر قائم ہے۔
مزمل اسلم نے حامدمیر کو جواب دیا کہ میر صاحب بجلی گاڑی والے الحمدللہ اب تک محفوظ ہیں اور اب تک پٹرول کی گاڑی بنانے والوں کا خوب نقصان کیا ہے
عاطف توقیر نے حامد میر کو جواب دیا کہ حامد بھائی! آپ خدارا سائنس کے علاقے میں مت پڑیں۔ ہائیڈروجن کٹ بنانے والا بندہ ایک فراڈ تھا اور آپ اور آپ جیسے متعدد دیگر احباب اپنے بھولے پن اور لاعلمی میں اس فراڈ کے پھیلاؤ کا ذریعہ بنے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہائیڈروجن کی تیاری کے لیے درکار توانائی اس سے حاصل ہونے والی توانائی سے زائد ہوتی ہے۔ اب چوں کہ یہ توانائی رینیوبلز سے حاصل کی جا رہی ہے، اس لیے یہ تیاری ممکن ہے۔ تاہم آپ کی یہ بات بالکل درست ہے کہ یہ کام پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں ہو سکتا تھا، جو پیٹرو کیمکمل کمپنیوں نے نہیں ہونے دیا اور اپنے منافع کے لیے سیارے کا مستقبل داؤ پر لگا دیا۔ پھر سمجھ لیں،
عاطف توقیر نے مزید کہا کہ پانی سے ہائیڈروجن بنانا بالکل ممکن ہے، تاہم اس کے لیے درکار توانائی کسی اور ذریعے سے حاصل ہو گی۔ آغا وقار کی پانی والی گاڑی سائنس کے اس بنیادی اصول کی خلاف ورزی ہے، جو یہ کہتا ہے کہ توانائی نہ بنائی جا سکتی ہے نہ فنا کی جا سکتی ہے۔