
انصار عباسی نے دعویٰ کیا ہے کہ نیب قوانین میں ترمیم کیلئے جاری کیے جانے والے آرڈیننس کو آئندہ ہفتے تک حتمی شکل دے دی جائے گی،جس میں نہ صرف موجودہ چیئرمین نیب کو عہدے پر بدستور کام کرنے کی اجازت دینے کے معاملے کو حل کیا جائے گا،بلکہ نئے آرڈیننس میں بیوروکریٹس، کاروباری افراد حتیٰ کہ سیاست دانوں کیلئے بھی نئی خبر سامنے آئے گی پی ٹی آئی حکومت چیئرمین نیب کے کسی بھی ملزم کو بلا روک ٹوک گرفتار کرنے کے اختیارات کی روک تھام پر سنجیدگی سے غور کر رہی ہے۔
انصار عباسی کے مطابق وقت کی قلت کے باعث آرڈیننس میں چیئرمین کے عہدے پر نئے تقرر تک جاوید اقبال کو کام کرنے کی اجازت دی جائے گی، اس کے باوجود وزیراعظم عمران خان اپوزیشن لیڈر سے مشاورت کریں گے،پھر نئے چیئرمین کا تقرر کیا جائے یا پھر موجودہ چیئرمین کو عہدے میں توسیع دی جائے۔
ذرائع کے مطابق وزیراعظم کے ساتھ ملاقات اس بات پر اتفاق ہوا کہ قانون کے مطابق وہ اپوزیشن لیڈر سے مشاورت کریں گے،کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ بھلے ہی شہباز شریف پر کرپشن کے کیسز چل رہے ہیں لیکن وہ مجرم نہیں ہیں لہٰذا حکومت نے اپنی اُس پالیسی سے فاصلہ اختیار کرلیا ہے جس میں یہ کہا گیا تھا کہ شہباز شریف چونکہ نیب کیسز کا سامنا کر رہے ہیں اسلئے اُن سے مشاورت نہیں کی جائے گی،ذرائع کا کہنا ہے کہ آرڈیننس کے مسودے میں موجودہ چیئرمین کے مسئلے کو حل کیا جائے گا احتساب کے نظام میں بہتری کیلئے بڑی تبدیلیاں کی جائیں گی،کسی بھی ملزم کو بغیر کسی روک ٹوک کے گرفتار کرنے کا چیئرمین کا صوابدیدی اختیار ختم کیا جائے گا۔
اختیارات کے غلط استعمال روکنے کیلئے بھی تجویز بھی دی گئی ہے،جس کے تحت پراسیکیوٹر جنرل کو آزاد کیا جائے اور اس کے بعد اگر نیب کوئی گرفتاری کرنا چاہے تو وہ اُس وقت ہوگی جب چیئرمین اور پراسیکیوٹر جنرل اس پر متفق ہوں،گرفتاری کا معاملہ چیئرمین کی صوابدید میں شامل نہیں ہوگا، اگر کسی ملزم کو گرفتار کیا جائے گا تو اس بارے میں تحریری طور پر فائل میں وجوہات بتانا ہوں گی۔
ذرائع کے مطابق چیئرمین نیب اور پراسیکیوٹر جنرل دونوں کو مل کر اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ اگر ملزم ملک سے باہر نہیں جا پاتا اور اس نے تفتیش میں بھی تعاون کیا ہے تو اسے گرفتار کرنے کی ضرورت کیا ہوگی،کاروباری افراد کے معاملات نیب کے دائرہ اختیار سے باہر ہوں گے، نیب کو صرف ایسے کیسز میں تحقیقات کی اجازت ہوگی،جن میں اُس کے پاس کسی بیوروکریٹ یا عوامی عہدیدار کیخلاف رشوت کمیشن یا کک بیکس کے ٹھوس شواہد موجود ہوں۔
چیئرمین اور پراسیکیوٹر جنرل کو عہدے سے ہٹانے کے معاملے پر سرکاری ماہرین قانون کی رائے میں اختلاف ہے۔ کچھ کی رائے ہے کہ یہ بات قانون میں واضح طور پر شامل کر دینی چاہئے کہ مس کنڈکٹ کی صورت میں، چیئرمین یا پراسیکیوٹر جنرل کیخلاف شکایت کی صورت میں معاملہ سپریم جوڈیشل کونسل کو بھیج دیا جائے۔
- Featured Thumbs
- https://i.ibb.co/yps0nPJ/6.jpg