حکومت کا عالمی دباؤ پر دینی مدارس کے انتظام کو اپنی سرپرستی پر لینے علماء کرام کا کہنا ہے۔ یہ ناممکن،ناقابل عمل بھی ہے اور یہ پاکستان کے آئین قانون کو کے تقاضوں کے بھی خلاف ہے۔ یہ پاکستان کے مفاد کے بھی خلاف ہے۔ حکومت پاکستان کو عالمی دباؤ پرملک اور قوم کے لئے یہ فیصلہ نہیں کرنا چاہیے۔بلکہ اپنے ملک کے مفاد کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔ اگرعالمی دباؤ کو دیکھا جاے جو توعالمی دباؤ ہمارے اوپر یہ بھی ہیں کہ ہم اپنا ایٹمی پروگرام ختم کریں۔ہم اپنی فوج کا تعداد کو بھی کم کریں۔ ہم اپنے دفاع کے بجٹ کم سے کم کریں۔ ایسی طرح سی پیک اور گوادر پورٹ کو بھی ختم کریں۔ جس طرح ہم عالمی دباؤکوان باتوں کو قبول نہیں کرتے تو جب بھی دین کی بات ہوتی ہے تو ہم کیوں عالمی دباؤ کی وجہ سے ان کو ختم کرنا شروع کردیتے ہیں۔دینی تعلیم ہمارے آئین کا تقاضا بھی ہےاور گورنمنٹ کے پاس نہ تجربہ و فکرہے اور نہ ہی پیسہ ۔
اگرہم بھٹو دور میں جن تعلیمی اداروں کوحکومت نے اپنی تحویل میں لیا تھا۔ بعد میں ان کومنتیں کر کے واپس پرائیویٹ لوگوں کودوبارہ دیا گیا تھا۔ ایسی طرح ہم جب دیکھتے ہیں حکومت نے جو بھی ادارہ اپنی تحویل میں لیا ہے اس کا رزلٹ اپ کے سامنے ہے۔مثلا پی آئی اے اور ریلوے پاکستان کو ہی دیکھ لیں ۔
ہم سب علماء کرام کا پچھلی حکومت اور اس حکومت سے ایک مطالبہ رہا ہے کہ ہمیں پورے پاکستان میں ایک ہی نظام تعلیم کو لاگو کرنا چاہیے اس بات پر سب علماء کرام متفق بھی ہیں ۔عمران خان نے حکومت میں آنے سے پہلے بہت بڑے بڑے دعوے کیے تھے ان میں ایک یکساں نصاب تعلیم بھی تھا لیکن آج تک عمران خان کی طرف سے حکومت میں آنے کے بعد بھی اس طرف کسی بھی قسم کا کوئی بھی قدم نہیں اٹھایا گیا ہے ۔
اس وقت پاکستان میں 25 نظام تعلیم چل رہے ہیں جبکہ مدارس میں الحمد للہ ایک ہی نظام تعلیم اس وقت بھی لاگو ہے وہ بھی پورے ملک میں۔ اور اس وقت تقریبا چالیس لاکھ طلبہ مدارس میں زیر تعلیم ہیں ۔پاکستان میں تعلیم ایک منافع بخش تجارت بن چکی ہے۔اور جس کے پاس پیسے ہوں گے تو وہی تعلیم کو لے پائے گا اور جس بچارے کے پاس پیسے نہیں ہوں گے تو وہ اس کو نہیں لے پائے گا۔خدارا ان بچوں کے مستقبل کے ساتھ عالمی دباو کی وجہ سے ہے نہ کھیلا جائے۔
اگرہم بھٹو دور میں جن تعلیمی اداروں کوحکومت نے اپنی تحویل میں لیا تھا۔ بعد میں ان کومنتیں کر کے واپس پرائیویٹ لوگوں کودوبارہ دیا گیا تھا۔ ایسی طرح ہم جب دیکھتے ہیں حکومت نے جو بھی ادارہ اپنی تحویل میں لیا ہے اس کا رزلٹ اپ کے سامنے ہے۔مثلا پی آئی اے اور ریلوے پاکستان کو ہی دیکھ لیں ۔

ہم سب علماء کرام کا پچھلی حکومت اور اس حکومت سے ایک مطالبہ رہا ہے کہ ہمیں پورے پاکستان میں ایک ہی نظام تعلیم کو لاگو کرنا چاہیے اس بات پر سب علماء کرام متفق بھی ہیں ۔عمران خان نے حکومت میں آنے سے پہلے بہت بڑے بڑے دعوے کیے تھے ان میں ایک یکساں نصاب تعلیم بھی تھا لیکن آج تک عمران خان کی طرف سے حکومت میں آنے کے بعد بھی اس طرف کسی بھی قسم کا کوئی بھی قدم نہیں اٹھایا گیا ہے ۔
اس وقت پاکستان میں 25 نظام تعلیم چل رہے ہیں جبکہ مدارس میں الحمد للہ ایک ہی نظام تعلیم اس وقت بھی لاگو ہے وہ بھی پورے ملک میں۔ اور اس وقت تقریبا چالیس لاکھ طلبہ مدارس میں زیر تعلیم ہیں ۔پاکستان میں تعلیم ایک منافع بخش تجارت بن چکی ہے۔اور جس کے پاس پیسے ہوں گے تو وہی تعلیم کو لے پائے گا اور جس بچارے کے پاس پیسے نہیں ہوں گے تو وہ اس کو نہیں لے پائے گا۔خدارا ان بچوں کے مستقبل کے ساتھ عالمی دباو کی وجہ سے ہے نہ کھیلا جائے۔
Last edited by a moderator: