
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد نے کہا ہے کہ خیبرپختونخوا میں اس قدر کرپشن ہے کہ کچھ بھی ڈیلیور نہیں کیا جاسکتا۔
خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ کے چیف جسٹس گلزاراحمد کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے بینچ نے 2005 زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں اسکولوں کی عدم تعمیر پر از خود نوٹس کیس پر سماعت ہوئی۔
دوران سماعت ایرا نے رپورٹ پیش کی جسے سپریم کورٹ نے غیر تسلی بخش قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا اور ایرا سے مکمل کیے گئے منصوبوں کے تمام شو اہد اور تصویری ثبوت فراہم کرنے کی ہدایت کی ہے۔
چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ یہ رپورٹ تو صرف آنکھوں میں دھول جھونکے کے مترادف ہے، زلزلہ متاثرین کی مدد پوری قوم نے کی حج کیلئے جمع کی گئی رقم عطیہ کردی، حکومت نے پیسہ دیا، بین الاقوامی امددا آئی مگر ایرا نے کیا کیا، اتنی امداد کے بعد تو علاقے کی بے مثال ترقی ہونی چاہیے تھی یہ علاقے تو 2 سال کے عرصے میں دوبارہ سے تعمیر ہوجانے چاہیے تھے۔
چیف جسٹس کے سخت ریمارکس پر خیبرپختونخوا کے ایڈووکیٹ جنرل نے موقف اختیار کیا کہ 2 ماہ میں صوبائی حکومت نے 148 اسکول فعال کردیئے ہیں جس پر چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سانحہ کے 16 سال بعد اب اسکول فعال ہورہے اس عرصے میں بچے کیا کرتے رہے؟ کتنے بچے تو اسکول نہ ہونے کے باعث بھاگ گئے ہوں گے۔
https://twitter.com/x/status/1443253876245864454
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ اور جس قسم کی اسکولوں کی عمارتیں تعمیر کی جارہی ہیں وہ تو 6 ماہ میں ہی زمین بوس ہوجائیں گی، ہمیں تو اساتذہ اور بچوں کی زندگیاں خطرے میں لگ رہی ہیں، صوبے میں اس قدر کرپشن ہے کہ کچھ بھی ڈیلیور نہیں کیا جاسکتا۔
جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے دوران سماعت ریمارکس دیئے کہ دہشت گرد ترقیاتی کام کرنےو الے ٹھیکیداروں سے بھتہ مانگ رہے ہیں اور انہیں سنگین نتائج کی دھمکیاں دے رہے ہیں جس کے باعث ڈیرہ اسماعیل خان اور بنوں میں کئی ٹھیکیدار کام چھوڑ کر بھاگ گئے ہیں۔
چیف سیکرٹری خیبرپختونخوا نے عدالت میں بھتہ مانگنے سے متعلق انکشاف پر لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس بارے میں متعلقہ حکام سے رپورٹ طلب کی جائے گی۔
- Featured Thumbs
- https://i.ibb.co/YNTfSwM/11.jpg